آمدن سے زائد اثاثے: پی ٹی آئی رہنما علیم خان کے جسمانی ریمانڈ میں 10 روز کی توسیع
لاہور کی احتساب عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق سینئر وزیر علیم خان کے جسمانی ریمانڈ میں 10 روز کی توسیع کردی۔
احتساب عدالت کے جج سید نجم الحسن نے کیس کی سماعت کی، جہاں علیم خان کو پیش کیا گیا۔
دوران سماعت عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ 9 روز کی تفتیش میں کیا کیا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ علیم خان سن 2000 میں کو آپریٹو سوسائٹی کے سیکریٹری بنے، 2003 میں ایم پی اے منتخب ہوئے اور 2007 تک وزیر رہے۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما علیم خان کا 15 فروری تک جسمانی ریمانڈ منظور
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ برطانیہ، دبئی اور پاکستان میں علیم خان نے بیشتر کمپنیاں بنائیں، اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کہ تمام کمپنیز ظاہر (ڈکلیئر) ہیں۔
اس پر نیب کے وکیل کی جانب سے جواب دیا گیا کمپنیز میں سرمایہ کاری کی تفصیلات علیم خان کے پاس نہیں ہے، علیم خان کے اثاثوں کی مالیت 15 سے 20 ارب تک پہنچ چکی ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 9 دن میں بیورو نے اس کیس سے متعلق 31 لوگوں کو بلایا جس میں 7 نے اپنے بیانات قلمبند کروائے۔
انہوں نے کہا کہ علیم خان سے 900 کینال خریدی کی گئی زمین کے بارے میں پوچھا ہے کہ کس طرح خریدی، علیم خان نے اس بات کا جواب نہیں دیا۔
عدالت میں دوران سماعت نیب کے وکیل نے بتایا کہ علیم خان کی فنانشل ٹیم کینیڈا میں ہے ابھی پاکستان میں موجود نہیں ہے جبکہ انہوں نے بتایا کہ 15 کروڑ روپے بیرون ملک سے ان کے والدین کو آئے لیکن اس سے متعلق علیم خان تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس بارے میں نہیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے 25 کروڑ بیرون ملک سے علیم خان کو بھجوائے، برطانیہ اور دبئی میں جائیداد خریدنے کے لیے علیم خان نے کس بینک سے کیسے پیسے بھجوائے علیم خان نے نہیں بتایا، تقریبا 90 کروڑ روپے دبئی میں پراپرٹی خریدنے کے لیے پاکستان سے بھجوائے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ برطانیہ اور دبئی میں پراپرٹری کی تفصیلات علیم خان فراہم نہیں کر رہے اور انہوں ںے کہا کہ آپ خود دستاویزات تلاش کریں۔
دوران سماعت نیب نے استدعا کی کہ علیم خان سے مزید تفتیش کے لیے ان کا مزید جسمانی ریمانڈ چاہیے۔
اس پر علیم خان کے وکیل نے دلائل دیے کہ ان کے موکل سے جو بھی ریکارڈ مانگا انہوں نے فراہم کیا ہے، دبئی اور برطانیہ میں پراپرٹی اور کمپنیز کی تمام تفصیلات فراہم کر دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب نے جھوٹ بولا کہ علیم خان ان سے تعاون نہیں کر رہے، نیب کی طرف سے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ 2003 میں علیم خان کے اثاثہ جات کی قیمت 13 کروڑ تھی اور اب 87 کروڑ 10 لاکھ روپے یہ کیسے ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ 51 کروڑ علیم خان کو ان کی والدہ سے وراثت میں ملے، انکم ٹیکس میں تمام چیزیں ظاہر کی گئی ہیں۔
وکیل علیم خان کا کہنا تھا کہ نیب صرف میڈیا پر چلانے کے لیے ریمانڈ لے رہا ہے تفصیلات ساری نیب کے پاس ہیں، عدالت میں نیب جھوٹ بول رہا ہے اللہ کو جان دینی ہے کسی افسر کو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب کیا کیس بنا رہا ہے، گرفتار آف شور کمپنیز میں کیا اور تحقیقات آمدن سے زائد اثاثوں میں ہو رہی ہے جبکہ نیب پھر جسمانی ریمانڈ لینے آگیا ہے۔
دوران سماعت وکیل نے مزید کہا کہ عدالت جسمانی ریمانڈ کی نیب کی استدعا مسترد کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دے۔
انہوں نے دلائل دیے کہ علیم خان نے 7 مارچ 2018 کو نیب کو تمام تر ریکارڈ تحریری طور پر فراہم کر دیا تھا، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 3کروڑ درہم جو پاکستان سے دبئی گئے اسکی تفصیلات علیم خان دیں۔
جس پر وکیل علیم خان نے کہا کہ یہ پیسے ان کے موکل کی والدہ کے اکاؤنٹس سے گئے علیم خان کیسے تفصیل فراہم کرسکتے ہیں۔
سماعت کے دوران علیم خان نے کہا کہ وہ 2000 سے 2007 تک عوامی عہدے پر رہے ہیں، مجھے نیب کی جانب سے جو نوٹس آیا اس میں مجھ پر کرپشن کا الزام لگایا گیا، کوئی ایک لائن نیب بتا دے جہاں پر میں نے کرپشن کی ہو۔
علیم خان کا کہنا تھا کہ میرے اثاثے ظاہر ہیں یہ نیب نے پاناما سے نہیں لیے،11 سال نیب سویا رہا اور اب مجھ پر کرپشن کا الزام لگا دیا گیا۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد سابق وزیر کے جسمانی ریمانڈ میں 10 روز کی توسیع کردی۔
اس سے قبل احتساب عدالت نے تحریک انصاف کے زیر حراست سینئر رہنما عبدالعلیم خان کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر 15 فروری تک ریمانڈ منظور کیا تھا۔
علیم خان کی گرفتاری
خیال رہے کہ 6 فروری کو نیب نے پی ٹی آئی رہنما اور اس وقت کے وزیر علیم خان کو نیب آفس میں پیشی کے بعد گرفتار کرلیا تھا۔
نیب کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ قومی احتساب بیورو نے پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان کو مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
اس اعلامیے میں ملزم عبدالعلیم خان کی گرفتاری کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ملزم کی جانب سے مبینہ طور پر پارک ویو کو آپریٹنگ ہاؤسنگ سوسائٹی کے بطور سیکریٹری اور ممبر صوبائی اسمبلی کے طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور اسی کی بدولت پاکستان اور بیرون ملک مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثے بنائے۔
یہ بھی پڑھیں: علیم خان کی گرفتاری: کیا وزارت اعلی کیلئے ان کی راہ ہموار ہوگئی؟
اعلامیے میں تفصیلات بتاتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ملزم عبدالعلیم خان نے ریئل اسٹیٹ کاروبار کا آغاز کرتے ہوئے اس کاروبار میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی جبکہ ملزم نے لاہور اور مضافات میں اپنی کمپنی میسرز اے اینڈ اے پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام مبینہ طور پر 900 کینال زمین خریدی جبکہ 600 کینال کی مزید زمین کی خریداری کے لیے بیانیہ بھی ادا کی گیا، تاہم علیم خان اس زمین کی خریداری کے لیے موجود وسائل کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔
نیب لاہور کے مطابق ملزم علیم خان نے مبینہ طور پر ملک میں موجود اپنے اثاثوں کے علاوہ 2005 اور 2006 کے دوران متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں متعدد آف شور کمپنیاں بھی قائم کیں تھیں جبکہ ملزم کے نام موجود اثاثوں سے کہی زیادہ اثاثے خریدے گئے جس کے بارے میں بھی تحقیقات جاری ہیں۔
اس اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ ملزم کی جانب سے مبینہ طور پر ریکارڈ میں ردوبدل کے پیش نظر ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔
خیال رہے کہ آمدن سے زائد اثاثے، پاناما پیپز میں آف شور کمپنی کے ظاہر ہونے اور ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق عبدالعلیم خان کے خلاف نیب تحقیقات کررہا تھا اور وہ 3 مرتبہ پہلے بھی نیب کے سامنے پیش ہوچکے تھے۔