شہباز شریف کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم
لاہور ہائی کورٹ نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ کیس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم جاری کردیا۔
واضح رہے کہ شہباز شریف کو 5 اکتوبر 2018 کو نیب لاہور نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ کیس میں حراست میں لیا تھا۔
شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد نیب کے بیان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا کنٹریکٹ لطیف اینڈ سنز سے منسوخ کر کے کاسا ڈیولپرز کو دیا جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا جس کے لیے مزید تفتیش درکار ہے۔
شہباز شریف کو نیب نے جنوری 2016 میں پہلی مرتبہ طلب کیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے چوہدری لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کے لیے دباؤ کا استعمال کیا اور لاہور کی کاسا کپمنی کو جو پیراگون کی پروکسی کپمنی تھی کو مذکورہ ٹھیکہ دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ سنایا۔
مزید پڑھیں: نیب نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر جواب جمع کروانے کے لیے مہلت مانگ لی
آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں ملزمان کی ضمانتوں کی درخواستوں پر ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے سیوریج اور سینیٹیشن کے کاموں کی تفصیلات کے علاوہ نالے کی فیزیبیلیٹی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کیں۔
انہوں نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ڈیولپمنٹ پلان کا بجٹ اسمبلی اور کابینہ نے منظور کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’منصوبے پر عمل اس وقت ہی شروع ہوتا ہے جب اسمبلی اسے منظور کرے، نیب ایسے ظاہر کر رہا ہے جیسے رمضان شوگر مل بھارت میں ہے‘۔
خیال رہے کہ قانون کے مطابق ملزم ٹرائل کورٹ کی جانب سے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجے جانے کے بعد ضمانت کی درخواست دائر کرسکتا ہے۔
شہباز شریف کو احتساب عدالت کی جانب سے گزشتہ سال 6 دسمبر کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا تھا۔
قومی احتساب ادارے نے شہباز شریف کو تقریباً 80 روز تک اپنے حراست میں رکھا۔
نیب نے الزام عائد کیا کہ شہباز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر رہتے ہوئے ضلع چنیوٹ کے نکاسی آب کا نظام تعمیر کرنے کی ہدایت دی تھی جس کا استعمال ان کے بیٹوں کی ملکیت میں کمپنی رمضان شوگر ملز نے کرنا تھا۔
نیب کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے لیے قومی خزانے کے 20 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے۔
فواد حسن فواد کی درخواست ضمانت مسترد
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں فواد حسن فواد کی ضمانت مسترد کردی۔
تاہم آشیانہ اقبال کیس میں ان کی درخواست ضمانت منظور کرلی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: 'بینچ تبدیل کیسے کر دیں اب ایسا نہیں ہوتا'
خیال رہے کہ 11 فروری 2019 کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست پر عدالتی بینچ کی تبدیلی کی قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
22 جنوری 2019 کو شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی، جسٹس ملک شہزاد احمد کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کا دو رکنی بینچ قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کی درخواست ضمانت پر سماعت کررہا تھا۔
آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں شہباز شریف پر الزامات
نیب نے اکتوبر کے آغاز میں شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں باضابطہ طور پر گرفتار کیا تھا۔
6 دسمبر کو احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت میں نیب نے شہباز شریف سے متعلق تفتیشی رپورٹ پیش کی۔
تفتیشی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ شہباز شریف نے اعتراف کیا کہ انہوں نے 2 کروڑ روپے سے زائد کی رقم بطور کرایہ رمضان شوگر مل کے توسط سے مری میں ایک جائیداد کی لیز کے طور پر حاصل کی۔
یاد رہے کہ آشیانہ اقبال اسکینڈل میں شہباز شریف سے قبل فواد حسن فواد، سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ، بلال قدوائی، امتیاز حیدر، شاہد شفیق، اسرار سعید اور عارف بٹ کو نیب نے اسی کیس میں گرفتار کیا تھا جبکہ دو ملزمان اسرار سعید اور عارف بٹ ضمانت پر رہا ہیں۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر نیب کو نوٹس
شہباز شریف کو نیب نے جنوری 2016 میں پہلی مرتبہ طلب کیا تھا، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے چوہدری لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کے لیے دباؤ کا استعمال کیا اور لاہور کاسا کپمنی کو جو پیراگون کی پروکسی کپمنی تھی مذکورہ ٹھیکہ دیا۔
رپورٹ کے مطابق شہباز شریف کے اس غیر قانونی اقدام سے سرکاری خزانے کو 19 کروڑ کا نقصان ہوا۔
شہباز شریف پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے 'پی ایل ڈی سی' پر دباؤ ڈال کر آشیانہ اقبال کا تعمیراتی ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دلوایا لیکن ایل ڈی اے منصوبہ مکمل کرنے میں ناکام رہا اور اس سے 71 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔
اس کے علاوہ شہباز شریف نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر کنسلٹنسی کا ٹھیکہ ایم ایس انجیئنر کنسلٹنسی سروس کو 19 کروڑ 20 لاکھ میں ٹھیکہ دیا، جبکہ نیسپاک نے اس کا تخمینہ 3 کروڑ لگایا تھا۔