پاکستان: ’تمباکو سے لاحق امراض کے علاج پر سالانہ 140 ارب روپے کے اخراجات‘
اسلام آباد: تمباکو نوشی غیر متعدی امراض کا باعث اور پھیلاؤ کا سبب بننے والی 5 بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ قرار دی جارہی ہے۔
پاکستان میں ہر سال 140 ارب روپے تمباکو نوشی سے جنم لینے والے امراض کے علاج پر خرچ کیے جاتے ہیں، یہ بات ’تمباکو سے محفوظ بچے‘ نامی مہم کے روحِ رواں ملک عمران نے ایک میڈیا ورکشاپ میں کہی۔
ورکشاپ کا انعقاد سوسائٹی برائے پروٹیکشن آف دا رائٹس آف دا چائلڈ (بچوں کے حقوق کا تحفظ) نے کیا تھا جس کا عنوان تھا ’تمباکو نوشی کے رجحانات اور سول سوسائٹی کے حکومت سے مطالبات‘۔
یہ بھی پڑھیں: موت کے منہ تک لے جانے والی تمباکو نوشی سے چھٹکارہ پائیں
ورکشاپ کے دوران ملک عمران نے پاکستان میں تمباکو نوشی کے رجحانات کا ذکر کیا جس میں سگریٹ نوشی، تمباکو چبانا، پان، بیڑی پینا، پان کے پتے، چھالیہ، نسوار اور ای سگریٹ شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے ’گناہ ٹیکس‘ جیسے اقدامات اس کے استعمال سے پھیلنے والی بیماریوں کے تدارک میں مددگار ثابت ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر صحت نے دعویٰ کیا تھا کہ تمباکو کی مصنوعات پر ’گناہ ٹیس‘ یا صحت محصول عائد کیے جائیں گے، اس کے باوجود حالیہ مالیاتی بل میں تمباکو کی اشیا پر ٹیکس میں صرف معمولی اضافہ کیا گیا۔
اس موقع پر اسپارک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سجاد احمد چیمہ نے کہا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے بہت سی اشیا کے نرخوں میں اضافہ ہوا لیکن تمباکو کی چیزوں کی قیمتیں وہی ہیں جنہیں خریدنا بچوں کے لیے بہت آسان ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نئی نسل کے تحفظ کے لیے تمباکو کی صنعت پر بھاری ٹیکس لگائے جائیں۔
ورکشاپ میں موجود دیگر شرکا نے تمباکو خریدنے کی سکت کم کرنے کے لیے مطالبہ کیا کہ شرح آمدنی اور مہنگائی میں اضافے کے ساتھ تمباکو پر عائد ایکسائز ٹیکس کو باقاعدگی سے بڑھایا جائے۔
مزید پڑھیں: تمباکو نوشی ترک کرنے کے حیرت انگیز اثرات
اس کے ساتھ تمباکو پر عائد مختلف ٹیکسز کو ہم آہنگ کر کے پوری طرح نافذ کیے جائیں اور غیر قانونی ذرائع سے تمباکو کی تجارت روکنے کے لیے ضابط بنایا جائے۔
اس ضمن میں بطور خاص طور پر فراہمی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے جائیں مثلاً لائسنس کی ٹریکنگ اور ریکارڈ مرتب کرنا اور ضوابط کو قانون سازی سے منسلک کر کے ٹیکس کی پابندی عائد کرنا۔
یہ خبر 14 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔