• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

محمد بن سلمان کا دورہ، عرب دوست پاکستان سے کیا چاہتے ہیں؟

شائع February 14, 2019

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 16 اور 17 فروری کو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس دورے کے دوران مالی امداد اور تعاون کے کئی منصوبوں کا اعلان بھی متوقع ہے جس سے پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی کی امید کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زاید نے بھی دورہ اسلام آباد کے دوران 3 ارب ڈالر کی مالی مدد کا اعلان کیا جبکہ سعودی عرب کی طرف سے بھی 3 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں جمع کرائے جانے کا وعدہ ہوا، جن میں سے ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط جمع بھی کرائی جا چکی ہے۔

سعودی ولی عہد کے دورہ کے دوران گوادر میں آئل ریفائنری کی تنصیب کے لیے 10 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے اعلان کی توقع ہے۔ گوادر میں آئل ریفائنری کو سی پیک کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی یہ فیاضانہ سرمایہ کاری پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر مشکل معاشی حالات میں گھرے وزیرِاعظم عمران خان کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ستمبر میں پہلا سرکاری دورہ سعودی عرب کا ہی کیا جس کا مقصد مالی مدد کی درخواست تھا لیکن پہلے دورے کے نتائج توقع کے مطابق نہیں نکلے۔ محمد بن سلمان نے اکتوبر کے آخری ہفتے میں سرمایہ کاری کانفرنس بلائی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب بڑے کاروباری اداروں نے اس کانفرنس سے غیر حاضری میں عافیت جانی جبکہ امریکا اور دیگر یورپی ملکوں نے بھی اپنے اپنے تحفظات کی بنا پر کانفرنس سے دُوری اختیار کی، لیکن وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

اس دورے کے نتیجے میں وزیرِاعظم عمران خان کو وہ کچھ مل گیا جس کا تقاضا انہوں نے پہلے دورے کے دوران بھی نہیں کیا تھا۔ سعودی عرب نے ادائیگیوں کے عدم توازن کے شکار پاکستان کو 3 ارب ڈالر نقد اور 3 ارب ڈالر کا ادھار تیل دینے کا وعدہ کیا۔ سعودی حکومت تحریک انصاف کی حکومت پر بھرپور مہربان نظر آ رہی ہے۔ اس مالی پیکج پر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کوئی خفیہ شرط یا وعدہ اس پیکج کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے۔

اب جب سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں تو ایک بار پھر سرکاری سطح پر کہا جا رہا ہے کہ بہت بڑا مالیاتی پیکج ملنے کو ہے۔ پہلے دورے کے دوران وزیرِاعظم عمران خان کی توقعات پوری نہ کرنے والے سعودی حکام جس فیاضی کا مظاہرہ اب کرنے کو تیار ہیں اس نے بین الاقوامی سطح پر کئی قیاس آرائیوں اور افواہوں کو جنم دیا ہے۔

گزشہ ماہ امریکی میڈیا نے سعودی عرب کے میزائل پروگرام کی سیٹلائٹ تصاویر جاری کیں اور کہا گیا کہ دارالحکومت ریاض سے 230 کلومیٹر کے فاصلے پر سعودی عرب نے میزائل فیکٹری قائم کی ہے اور وہ بیلسٹک میزائلوں کی تیاری پر کام کر رہا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ سال امریکی ٹی وی سی بی ایس کے پروگرام 60 منٹ میں کہا تھا کہ اگر ایران جوہری بم تیار کرتا ہے تو سعودی عرب بھی فوری طور پر جوہری بم بنانے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا اب ولی عہد کے اس انٹرویو اور میزائل فیکٹری کے قیام کو جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔

سعودی میزائل پروگرام کے حوالے سے دعوٰی کیا جاتا ہے کہ چین نے 1987ء میں پاکستان کے توسط سے سعودی عرب کو میزائل فراہم کئے۔ سعودی عرب نے 2014ء میں امریکا ایران مذاکرات کے دوران یہ میزائل ملٹری پریڈ میں بھی دکھائے جو ایران اور امریکا کو ایک طرح سے وارننگ تصور کی گئی تھی۔

ان امکانات پر اردن کے میڈیا ہاؤس البوابۃ نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ سعودی عرب میزائل پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پینٹاگون کے سابق عہدیدار اور عرب امور کے ماہر مائیکل روبن کا کہنا ہے کہ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ جاری ہے۔

مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکی پالیسیوں میں تبدیلی نے ریاض پر اثر ڈالا ہے اور اب وہ وائٹ ہاؤس کی باتوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں بلکہ یہ ثابت کرنے پر تلا ہے کہ وہ معاملات اپنے ہاتھوں میں لے سکتا ہے۔ میزائل ایکسپرٹ جیفری لوئس کا کہنا ہے کہ میزائلوں میں بھاری سرمایہ کاری جوہری ہتھیاروں میں دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔

سعودی عرب کا میزائل پروگرام ایران کے ردِعمل میں ہے۔ کسی اور ملک کا اس کے ساتھ کوئی واسطہ ہے یا نہیں، ابھی تک یہ سب قیاس آرائی ہے، لیکن یہ قیاس آرائی بہت سے ممالک کے آپس کے تعلقات بگاڑنے کا سبب بن سکتی ہے۔

سعودی خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سعودی امداد بغیر شرائط کے نہیں ہوتی۔ سعودی مالیاتی پیکج کو دوبارہ پاکستان کی سعودی بیعت سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی جماعت کے اصولی موقف کے برعکس ہوگا۔

گوادر میں 10 ارب ڈالر کی آئل ریفائنری سی پیک کا حصہ ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سی پیک کا حصہ بننے کے بھی چند مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ سعودی عرب کے سی پیک میں شامل ہونے کے یہ مثبت اور منفی پہلو چین اور پاکستان دونوں کے لیے ہیں۔ گوادر میں سعودی آئل ریفائنری سے چین کو فائدہ ہوگا۔ چین دنیا میں تیل سپلائی کے ایک چوتھائی کا اکیلا خریدار ہے اور گوادر میں آئل ریفائنری اور پائپ لائن منصوبے سے چین اپنی توانائی کی ضروریات کو تحفظ دے سکتا ہے لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شمولیت سے امریکی مفادات بھی سی پیک میں در آئیں گے۔

امریکا مشرق وسطیٰ میں عرب نیٹو کے منصوبے پر کام کر رہا ہے اس طرح سے وہ چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سیکیورٹی مفادات پر اس کے اخراجات کم ہوں اور خطے کے ممالک سارا بوجھ خود پر لیں۔ پاکستان دہشتگردی کے خلاف بننے والے اسلامی اتحاد کا اہم رکن ہے اور عرب نیٹو کی تشکیل میں پاکستان کا کردار بھی اہم ہوگا۔ سی پیک میں عرب ملکوں کی شمولیت سے پاکستان کا چین پر انحصار بھی کم ہوسکتا ہے۔

سی پیک میں سعودی عرب اور دیگر ملکوں کی شمولیت سے گوادر میں سرمایہ کاری کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ سی پیک اور گوادر کے بارے میں دیگر ملکوں کے تحفظات کم ہوں گے اور گوادر کے چینی فوجی اڈا بننے کی افواہوں کا بھی دم گھٹ جائے گا۔ سی پیک اور گوادر سے وابستہ پاکستان کی توقعات پوری ہونے کے امکانات بھی روشن ہوں گے۔ سرمایہ کار گوادر بندرگاہ اور صنعتی زون کو زیادہ سنجیدہ لیں گے۔ عرب ملکوں کے جیوپولیٹیکل مفادات کا بھی تحفظ ہوگا اور وہ چین کے صدی کے سب سے بڑے منصوبے کے ساتھ جڑ جائیں گے۔

سی پیک سے جڑے اس آئل سٹی منصوبے میں سعودی سرمایہ کاری کے بعد مزید کئی عرب اور افریقی ممالک سرمایہ کاری منصوبوں کے ساتھ سامنے آسکتے ہیں۔ امارات بھی گوادر میں 5 سے 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ریفائنری کی تنصیب کا منصوبہ رکھتا ہے۔ دونوں ملک بڑھتی ہوئی مسابقت میں تیل سپلائی اور برآمدات کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

گوادر بندرگاہ اور چاہ بہار پورٹ اسٹرٹیجک حوالوں سے اہم ہیں۔ امریکا نے ایران پر پابندیوں کے باوجود بھارت کو چاہ بہار میں سرمایہ کاری سے روکنے کے بجائے پابندیوں سے استثنا دیا۔ اس استثنا کی وجہ ٹرمپ کی مودی سے دوستی یا محبت نہیں بلکہ افغانستان ہے۔ امریکا افغانستان میں بھارتی کردار چاہتا ہے اور بھارت اس بندرگاہ کے ذریعے افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی کا طلب گار ہے۔ امریکی استثنا کی دوسری وجہ چین سے مسابقت ہے۔ چاہ بہار اور گوادر اسٹرٹیجک اعتبار سے بھی اہم ہونے کے ساتھ ساتھ دبئی کی حریف بھی ہیں۔

عرب امارات کی دبئی پورٹ ورلڈ (DP World) بین الاقوامی پورٹ منیجمنٹ میں ایک بڑی اور طاقتور کمپنی ہے جو دنیا بھر میں تقریباً 80 بندرگاہوں کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے جن میں جبل علی پورٹ بھی شامل ہے۔ جبل علی پورٹ مشرق وسطیٰ میں تجارتی اعتبار سے سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ عرب امارات شروع سے ہی گوادر اور چاہ بہار دونوں کو دبئی پورٹ کے مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتا رہا ہے۔ اب اگر عرب امارات اور سعودی عرب دونوں پاکستان پر بیک وقت مہربان ہیں تو بھی ان کے اپنے کچھ مفادات انہیں اس پر مجبور کر رہے ہیں۔ عرب امارات پاکستان کے ساتھ مل کر چاہ بہار سے اپنے مفادات کو ہونے والا نقصان روکنے کی کوشش میں ہے۔

افغانستان سے امریکی انخلا اس وقت خطے کا سب سے بڑا ایونٹ ہے جو مستقبل پر اثرانداز ہوگا۔ اس حوالے سے بھی نئی صف بندی ہو رہی ہے۔ طالبان کی حکومت گرانے میں مددگار رہنے والا ایران اب طالبان کا اتحادی بننے کی کوشش میں ہے۔ ایران افغانستان میں طالبان کی حکومت بننے کی صورت میں اپنا تحفظ کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی نظریاتی طور پر مخالف ریاست کی تشکیل سے بھی خوفزدہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف سعودی عرب اور عرب امارات افغان طالبان کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

افغان طالبان کے پاکستان کے ساتھ روابط اور بھارت کے ساتھ معاندانہ رویہ ایرانی مفادات کے لیے خطرہ ہے جس نے چاہ بہار کا انتظام بھارت کو سونپ رکھا ہے۔ بھارت بھی طالبان کے اقتدار سے خوفزدہ ہے اور چاہ بہار پر کی گئی سرمایہ کاری ضائع ہونے سے ڈر رہا ہے۔ ایران اس وقت افغانستان کے ساتھ تقریباً 3 ارب ڈالر کی برآمدات کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں ایران کے نزدیک طالبان کی حکومت کا مطلب افغانستان، پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا چار فریقی اتحاد ہوسکتا ہے، جسے تہران اپنے لیے مشکلات کا سبب سمجھتا ہے۔ پھر خطے کے تمام ممالک اچانک امریکی انخلا سے بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ طاقت کا خلا پیدا ہونے کا ڈر ہے اور یہ صورت حال افغانستان کو دوبارہ نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

روس اور امریکا کا جوہری معاہدہ ختم ہونے کے بعد دنیا ایک بار پھر سرد جنگ جیسے حالات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ خطے کے ان حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو ایسی پالیسی اختیار کرنا ہوگی جو دوست اور برادر اسلامی ملکوں کے ساتھ برابری اور غیر جانبداری پر مبنی ہو اس کے ساتھ علاقائی طاقتوں کے ساتھ اتحاد اور مضبوط روابط کی کوشش بھی جاری رکھنی چاہئے۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Naseer Khan Feb 16, 2019 09:56pm
بھت اعلی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024