سپریم کورٹ: بحریہ ٹاؤن کے خلاف ریفرنسز کو حتمی شکل دینے کا حکم
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو حکم دیا ہے کہ وہ بحریہ ٹاؤن (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے خلاف ڈیولپر اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کے درمیان زمین کے تبادلے سے متعلق کیس میں آگے بڑھتے ہوئے ریفرنسز کو حتمی شکل دے۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس میں جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ’الجھن کو دور کرنے کے لیے یہ واضح کردیا جائے کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس قانون کے مطابق کارروائی پر نیب کو نہیں روکے گا‘۔
دوران سماعت پراسیکیوٹر جنرل بیورو سید اصغر حیدر کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ ’کیون نیب کشمکش میں پڑا ہوا ہے؟‘۔
عدالت کی جانب سے یاد دہانی کروائی گئی کہ گزشتہ سماعتوں میں سے ایک سماعت کے دوران نیب نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اس نے اپنی تحقیقات مکمل کرلی یہاں تک کہ ریفرنسز تیار بھی تھے لیکن ان کی تصدیق کی جارہی تھی۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ حتمی ریفرنسز 2 سے 3 ہفتوں میں تیار ہوجائیں گے، جس پر عدالت نے نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی تحقیقات جاری رکھے جو اس نے عدالت عظمیٰ کے 4 مئی 2018 کے فیصلے کے تحت ڈیولپر کے خلاف شروع کی تھی۔
اس پر پراسیکیوٹر جنرل نے واضح کیا کہ احتیاطی طور پر نیب ڈیولپر ٹائیکون اور سندھ حکومت کے درمیان معاملات کے نتیجے کا انتظار کررہا اور یہی وجہ ہے کہ اب تک ریفرنسز فائل نہیں کیے گئے۔
سماعت کے دوران ملک ریاض کی جانب سے پیش ہونے والے ایک اور وکیل اظہر صدیق نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ ابھی نیب کو کوئی ہدایت جاری نہ کرے کیونکہ اس وجہ سے ماحول خراب اور مارکیٹ میں ہیجانی صورتحال پیدا ہوئی، جس سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کمی ہوئی۔
اس پر جب وکیل کی جانب سے عدالت میں کہا گیا کہ ان کے موکل نیب کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ پر اعتراضات جمع کروانا چاہتے ہیں تو جسٹس عظمت سعید نے واضح کیا کہ نیب کی جانب سے پیش رفت رپورٹ جمع کروائی گئی تھی، جس پر عدالت نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا کیونکہ وہ احتساب عدالت کے ٹرائل میں مداخلت نہیں چاہتی۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ’یہ ہمارا کام نہیں ہے لیکن ٹرائل کورٹ ریفرنسز پر اس کا فیصلہ کرسکتی ہے‘۔
اس سے قبل دوران سماعت عدالت نے مارکیٹنگ کمپنی پرزم، کوس موس، ٹرائی اسٹارز سے متعلق بحریہ ٹاؤن کے پلاٹوں کی بکنگ کی تفصیلات طلب کیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن سے متعلق عدالتی کارروائی نیب کے کام پر اثر انداز نہیں ہوگی، نیب اپنا کام جاری رکھے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی 250 ارب روپے کی پیشکش مسترد کردی
دوران سماعت شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ہم بحریہ ٹاؤن کو ملزمان کے ڈیلرز کو ملزمان کے طور پر نہیں بلا رہے بلکہ انہیں عدالتی معاونت کے لیے بلایا جارہا ہے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ڈیلرز کے وکلا سے مکالمہ کیا کہ اگر ڈیلرز مجرم بن کر آنا چاہتے ہیں تو ہم ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیتے ہیں، جو آپ کا مسئلہ نہیں ہے اسے اپنا مسئلہ نہ بنائیں۔
جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ اگر آپ سے عدالت کی معاونت نہیں ہو سکتی تو ہم کسی اور کو کہہ دیتے ہیں، آ بیل مجھے مار والا حال نہ کریں۔
اس دوران بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سپریم کورٹ عملدرآمد کیس کی سماعت 14 فروری تک ملتوی کرے، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ 14 تاریخ کو ویلنٹائن ڈے تو نہیں؟
انہوں نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ اگر آپ کے کلائنٹس نے ہمیں تنگ کیا تو ہم پراسیکیوٹر سے شکایت نہیں کریں گے۔
بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت جمعرات 14 فروری تک ملتوی کردی۔
بحریہ ٹاؤن کیس
4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی کے قبضے میں موجود غیرقانونی زمین واگزار کروانےکا حکم
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔
عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں دیے گئے فیصلے پر عمدرآمد کےلیے ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
اس کیس میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اپنی زمین کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے پہلے 250 ارب روپے کی پیش کش کی تھی جسے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد 16 ہزار ایکڑ زمین کے عوض 358 ارب روپے دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔