مشکل حالات کے باوجود پاکستان سپر لیگ کامیاب برانڈ آخر کیسے بنی؟
پاکستان میں ریکارڈ سردیاں پڑنے کے بعد امید ہے کہ آئندہ چند روز میں ٹھنڈک کا زور ٹوٹ جائے گا اور ماحول پر چھائی سرد مہری کا بھی خاتمہ ہوجائے گا، لیکن اگر موسم کی شدت میں فرق نہ پڑے تو بھی کوئی بات نہیں کیونکہ دلوں کو گرمانے کے لیے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا چوتھا سیزن بس شروع ہونےہی والا ہے۔
توقعات کے بوجھ تلے دبے اس سیزن کے بارے میں کئی خدشات تو موجود ہیں لیکن ان سے آنکھیں چراتے ہوئے ماضی پر نظر دوڑاتے ہیں۔
آغاز
پاکستان سپر لیگ کا آغاز 2016ء میں بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ ہوا تھا اور سچ یہ ہے کہ ہمیں ان پر ذرا سا بھی یقین نہیں آیا تھا، پھر یہ سوچنا تو بہت دُور کی بات کہ پی ایس ایل اتنی کامیاب ہوگی کہ چوتھے سیزن تک پہنچ جائے گی۔
اس وقت جو خدشات تھے وہ بے جا بھی نہیں تھے کیونکہ ایک طرف پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے کمزور مالی حالات تھے اور دوسری جانب لیگ کرکٹ کے انعقاد کا ایسا میدان جس میں قدم رکھتے ہوئے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک بھی ہچکچائیں، جہاں بنگلہ دیش اور سری لنکا ناکامی کے بھیانک تجربات سے گزر چکے ہوں اور بعد جنوبی افریقہ بھی مایوس کن نتائج بھگت چکا ہو، وہاں پاکستان کرکٹ بورڈ کا خم ٹھونک کر جانا حیران کن بھی تھا اور پریشان کن بھی۔
مجھ جیسے خوش فہم بھی سمجھ رہے تھے کہ پی ایس ایل صرف دعاؤں کے آسرے پر ہی چل سکتی ہے اور وہ بھی شاید ایک دو سیزن۔ لیکن سارے خدشات کا خاتمہ ایسے ہوا گویا وہ تھے ہی نہیں۔ پاکستان سپر لیگ نے پہلے ہی سیزن میں مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑ دیے۔ پاکستان نے ثابت کیا کہ وہ تمام تر بدترین حالات کے باوجود لیگ کا انعقاد کامیابی کے ساتھ کرسکتا ہے اور وہ بھی مکمل طور پر اپنے بل بوتے پر۔
لیکن آج صرف 3 سیزنز بعد، پاکستان سپر لیگ دنیا کی مقبول ترین کرکٹ لیگز میں سے ایک ہے اور دورِ جدید کا شاید ہی کوئی ایسا بڑا نام ہو جو لیگ کرکٹ کھیلتا ہو اور اب تک پاکستان سپر لیگ میں شرکت نہ کی ہو۔ کرس گیل سے لے کر برینڈن میک کولم، سنیل نرائن سے لے کر شین واٹسن، کیون پیٹرسن سے لے کر اے بی ڈی ویلیئرز تک، سبھی نے پاکستانی مزاج کی کرکٹ کا ذائقہ چکھ لیا ہے یا چکھنے والے ہیں۔
پہلا سیزن
اگر پی ایس ایل کے پہلے سیزن کی بات کریں تو اس کی کامیابی کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس سے کوئی توقع وابستہ ہی نہیں تھی۔ آخر توقعات وابستہ ہوتیں بھی تو کیسے؟ پی ایس ایل کے انعقاد کے لیے ہر بار ابتدائی قدم اٹھتے اور پھر ناکامی ہوتی، لوگو تک لانچ ہوگیا، انتظامیہ کا اعلان بھی ہوگیا لیکن معاملہ ٹیموں تک نہیں پہنچا، پھر جب ٹیمیں سیٹ کرنے کی کوشش کی گئی تو 5 ٹیمیں خریدنے کے لیے میدان میں اترے صرف 2 ادارے۔
ایسا لگتا تھا کہ پاکستان سپر لیگ کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔ لیکن بورڈ انتظامیہ نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر 2016ء میں لیگ کی مضبوط بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سیزن کی کامیابی پر نہ صرف پی سی بی کی انتظامیہ لائقِ تحسین تھی بلکہ فرنچائزز خریدنے والے اداروں سے لے کر ہر ہر مرحلے پر انتظامات کا حصہ رہنے والے افراد بھی مبارک باد کے مستحق تھے۔
پی ایس ایل کے پہلے سیزن کے فائنل میں جب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو شکست دے کر اسلام آباد یونائیٹڈ پہلی بار چیمپیئن بنا اور اس کے کپتان مصباح الحق نے فاتحانہ ٹرافی اٹھائی تو وہ ایسا لمحہ تھا، جو ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔ اس پہلے سیزن میں کوئی خامی نہ تھی، سوائے اس کے کہ تمام میچز متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے اور یہی 'ریشم میں ٹاٹ کا پیوند' تھا۔
پاکستان عرصہ دراز سے بین الاقوامی کرکٹ سے محروم تھا اور اپنے تمام انٹرنیشنل میچز کی میزبانی تک متحدہ عرب امارات میں کر رہا تھا۔ پی ایس ایل سے یہ امید تھی کہ اس کے ذریعے پاکستان میں کرکٹ واپس آئے گی لیکن پہلی بار کوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ لیگ کا مکمل طور پر انعقاد امارات میں کیا گیا، افتتاحی تقریب سے لے کر فائنل تک۔
دوسرا سیزن
لیکن پہلے سیزن کی کامیابی نے دوسرے سیزن کے لیے حوصلے بہت بڑھا دیے یہاں تک کہ انتظامیہ نے فائنل کا انعقاد لاہور میں کروانے کا اعلان کردیا۔ دوسرے سیزن کے تمام مقابلے ایک طرف اور صرف لاہور میں فائنل کروانے کے لیے حوصلہ دوسری طرف، یہ پی ایس ایل انتظامیہ کا بہت مشکل لیکن بہت اہم فیصلہ تھا جس پر اسے جتنا سراہا جائے کم ہے۔
دوسرے سیزن میں نہ صرف متحدہ عرب امارات میں تمام مقابلوں کا انعقاد کامیابی سے ہوا بلکہ لاہور کی ایک یادگار شام میں ہم نے پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی اٹیرز کو فائنل کھیلتے بھی دیکھا جس میں پشاور چیمپیئن بنا۔
تیسرا سیزن
تیسرے سیزن تک پاکستان سپر لیگ ایک مضبوط برانڈ بن چکی تھی اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کے سب سے بڑے برانڈز میں سے ایک بن گئی۔ اس سیزن میں ایک اور ٹیم بھی شامل ہوئی جسے ملتان سلطانز کا نام دیا گیا۔ زیادہ کھلاڑی اور زیادہ مقابلوں کے ساتھ اس سیزن کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس بار آخری دونوں کوالیفائرز اور فائنل کا انعقاد پاکستان میں ہوا۔ آخری دونوں کوالیفائرز لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں جبکہ فائنل کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہوا، جو پہلے سے بھی بہت بڑا ہدف تھا اور اس بار بھی پی ایس ایل انتظامیہ نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ کراچی کی ایک خوبصورت شام میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے پشاور زلمی کو ہرایا اور دوسری بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
اگر تینوں سیزنز کو دیکھا جائے تو پہلا سیزن تو پہلا تھا اور توقعات صفر ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ مقبول ہوا لیکن جتنی بڑی کامیابی تیسرے سیزن نے حاصل کی، وہ پاکستان سپر لیگ میں اب تک کوئی سیزن حاصل نہیں کرسکا۔ وجہ سادہ سی ہے کہ زیادہ ٹیمیں، زیادہ میچز اور اہم ترین مقابلوں کا پاکستان میں انعقاد۔
پاکستان میں ہونے والے انہی میچز کی وجہ سے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی۔ ورلڈ الیون کے علاوہ سری لنکا اور ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے دورے کیے اور یوں اس تنہائی کا خاتمہ ہوا جو پاکستان کرکٹ کے شائقین محسوس کر رہے تھے۔ یوں یادگار میچز اور مالی لحاظ سے کامیابی کے ساتھ ساتھ پاکستان کرکٹ پر اثرات کے لحاظ سے بھی تیسرے سیزن کو ہم پی ایس ایل تاریخ کا سب سے کامیاب سیزن کہہ سکتے ہیں۔
چوتھا سیزن
اب نئے سیزن میں پاکستان سپر لیگ کا انتظام نئے ہاتھوں میں ہے۔ گزشتہ سال انتخابات کے بعد نہ صرف حکومت نئی جماعت کے ہاتھ میں آئی بلکہ کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور بھی نجم سیٹھی سے لے کر احسان مانی کو سونپ دی گئی، جو دنیائے کرکٹ میں بڑا نام رکھتے ہیں اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی سربراہی تک کرچکے ہیں۔ ان کی زیر قیادت لیگ انتظامیہ کے عزائم اب مزید بلند ہوگئے ہیں اور اس نے ارادہ کیا ہے کہ پہلے مرحلے کے آخری 4 مقابلے بھی پاکستان میں ہی ہوں گے اور ساتھ ہی تمام کوالیفائرز اور فائنل بھی۔ یعنی اس مرتبہ کل 8 میچز لاہور اور کراچی میں کھیلے جائیں گے جس میں نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلا جانے والا فائنل بھی شامل ہوگا۔
یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ اس سیزن کے کامیاب انعقاد سے اگلے سال تمام میچز پاکستان میں کھیلنے کے ہدف کی راہ کتنی ہموار ہوگی؟ لیکن اس سے پہلے ہمیں دلچسپی ہے ہوم گراؤنڈ پر اور ہوم کراؤڈ کے سامنے کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کے مقابلوں کی، دیکھتے ہیں اس سال ان دونوں کی قسمت کس طرح بدلتی ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں