کراچی: ارشاد رانجھانی ہلاکت، تحقیقاتی ٹیم کی سفارش پر 'ذمہ دار شخص' گرفتار
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ شاہ لطیف ٹاون میں ارشاد احمد رانجھانی کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کی سفارش پر واقعے میں فائرنگ کے ذمہ دار رحیم شاہ کو گرفتار کرکے ان کے علاوہ ان کے دو بیٹوں، دو گارڈز اور پولیس افسران کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ ارشاد احمد رانجھانی کے ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) شرقی عامر فاروقی، ایس ایس پی غلام اصفر مہیسر اور فرخ ملک پر مشتمل ٹیم کر رہی ہے۔
پولیس نے مزید بتایا کہ بااثر ملزم رحیم شاہ کی گرفتاری ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ کی ہدایت پر عمل میں آئی ہے۔
خیال رہے کہ رحیم شاہ پر فائرنگ سے زخمی کیے جانے والے ارشاد احمد رانجھانی کو فوری طور پر ہسپتال نہ پہنچانے کا الزام ہے۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ سندھ نے ارشاد رانجھانی کے قتل کا نوٹس لے لیا
ملزم رحیم شاہ کو فی الحال ایڈیشنل آئی جی کے حکم پر تفتیش کے لیے تحویل میں لیا گیا ہے۔
بعد ازاں ڈی آئی جی شرقی عامر فاروقی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یوسی چیئرمین رحیم شاہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور موقع سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا۔
ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ الزام ہے کہ رحیم شاہ نے زخمی ارشاد کو ہسپتال منتقل نہیں ہونے دیا اور اس حوالے سے مختلف عینی شاہدین اور ایمبولینس ڈرائیور کا بیان لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں واضح ہوگیا کہ واقعہ ڈکیتی کا ہی تھا اور ارشاد احمد رانجھانی کے دیگر ساتھی بھی موقع پر موجود تھے، پولیس افسر نے بتایا کہ ارشاد احمد رانجھانی کو 5 گولیاں لگیں۔
ڈی آئی جی شرقی عامر فاروقی نے بتایا کہ فرائض سے غفلت برتنے پر سب انسپکٹر ریاض حسین کو معطل کردیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ گرفتار رحیم شاہ پر ماضی میں بھی 3 مقدمات درج ہیں۔
ارشاد رانجھانی کے قتل کا مقدمہ درج
شاہ لطیف ٹاؤن پولیس نے ملیر کے گرفتار یوسی چیئرمین عبدالرحیم شاہ، پولیس افسران اور دیگر کے خلاف نیشنل ہائی وے میں بھینس کالونی کے قریب 6 فروری کو ارشاد رانجھانی کے قتل اور دہشت گردی ملوث ہونے پر مقدمہ درج کرلیا۔
ڈی آئی جی ایسٹ عامر فاروقی نے کہا کہ 'پولیس نے رحیم شاہ، ان کے دو بیٹوں، دو گارڈز، ایک ڈی ایس پی اور سب انسپکٹر عامر ریاض کے خلاف سیکشن 302، دفعہ 34 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے'۔
'پولیس کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے'
اس سے قبل وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبائی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشاد رانجھانی کو 5 گولیاں بہت قریب سے ماری گئیں اور اس قتل کیس میں پولیس بھی ملوث ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس گولیاں لگے شخص کوہسپتال پہنچانے کے بجائے تھانے لے جاتی ہے، پولیس کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اگر واقعے کا مقدمہ درج نہ ہوا تو میں خود مقدمہ درج کراؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ ارشاد رانجھانی قتل کے واقعے نے مجھے ہلا دیا ہے اور آئی جی سندھ کو واقعے کی تحقیقات کے لیے سخت احکامات دیے ہیں اور واقعے کی تفتیش جلد مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ پولیس نے غیرذمہ دارانہ رویہ دکھایا اور وقت پرجائے وقوع پر نہیں پہنچ سکی جس کے باعث حکومت پر جان و مال کی حفاظت کا عوامی اعتماد متاثر ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یوسی چیئرمین کی فائرنگ سے ہلاک جے ایس ٹی کے صدر کے لواحقین کا احتجاج
خیال رہے کہ 8 فروری 2019 کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن کے قریب نیشنل ہائی وے پر 2 روز قبل بھینس کالونی یونین کونسل کے چیئرمین کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے جئے سندھ تحریک کراچی کے صدر ارشاد رانجھانی کے لواحقین نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کیا تھا۔
یوسی چیئرمین نے دعویٰ کیا تھا کہ 6 فروری کو بھینس کالونی موڑ کے قریب 2 مشتبہ افراد نے انہیں لوٹنے کی کوشش کی اور اسی دوران انہوں نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک مشتبہ شخص ہلاک اور دوسرا فرار ہوا، بعد ازاں ہلاک شخص کی شناخت ارشاد رانجھانی کے نام سے ہوئی۔
ارشاد رانجھانی کے لواحقین اور رشتے داروں کا موقف ہے کہ وہ بے گناہ تھے۔
کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج میں شامل آفتاب شاہ کا کہنا تھا کہ مقتول ارشاد رانجھانی ان کی جماعت جئے سندھ تحریک کراچی کے صدر تھے۔
مقتول کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ ضلع دادو میں اپنے اہل خانہ سے ملنے کے لیے 15 روز قبل دبئی سے آئے تھے اور 2 روز قبل دادو سے واپس کراچی کے علاقے کورنگی میں اپنی رہائش گاہ پہنچے تھے۔
9 فروری 2019 کو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک روز قتل کیے جانے والے ارشاد احمد رانجھانی کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس کو واقعے کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا تھا۔