• KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:24am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:59am Sunrise 6:22am
  • ISB: Fajr 5:06am Sunrise 6:31am

امریکا: مسلمان اراکینِ پارلیمنٹ کی اسرائیل کے بائیکاٹ کی حمایت سے نئے تنازع کا آغاز

شائع February 11, 2019
الہان عمر اور رشیدہ طالب نے گزشتہ ماہ جنوری میں ایوانِ نمائندگان میں قدم رکھا تھا  —فوٹو:اے ایف پی
الہان عمر اور رشیدہ طالب نے گزشتہ ماہ جنوری میں ایوانِ نمائندگان میں قدم رکھا تھا —فوٹو:اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی کانگریس میں پہلی 2 مسلمان خواتین کی جانب سے اسرائیل کے بائیکاٹ کی حمایت کیے جانے سے ڈیموکریٹک پارٹی میں خلیج اور امریکا-اسرائیل اتحاد میں دراڑ آنے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الہان عمر اور رشیدہ طالب نے گزشتہ ماہ جنوری میں ایوانِ نمائندگان میں قدم رکھا تھا اور علی الاعلان اسرائیل کے خلاف فلسطین کی بائیکاٹ تحریک اور ترک سرمایہ و پابندی (بی ڈی ایس) کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

مذکورہ تحریک کا آغاز ایک دہائی قبل ہوا تھا جس کی بنیاد 1960 میں افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے طرز پر رکھی گئی تھی اور لوگوں اور تنظیموں سے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی، ثقافتی اور تعلیمی تعلقات روک دینے اور صیہونی ریاست کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2 مسلمان خواتین رکنِ پارلیمنٹ منتخب

لیکن اسرائیل کے حمایتیوں کے لیے، جس میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن اراکینِ کانگریس بھی شامل ہیں، بی ڈی ایس یہود دشمن اور اسرائیل کو لاحق ایک خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی رکنِ کانگریس رشیدہ طالب کا تعلق فلسطین سے ہے اور الہان عمر ایک صومالی مہاجر کی بیٹی ہیں۔

اس حوالے سے رشیدہ طالب کا کہنا تھا کہ بی ڈی ایس سے نسل پرستی اور اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب توجہ مبذول ہوگی۔

مزید پڑھیں: امریکی امداد کی کٹوتی سے فلسطینی متاثر، امن کی امیدیں مزید معدوم ہونے لگیں

دوسری جانب الہان عمر نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی کی طرز پر امتیازی سلوک برتنے کا الزام لگایا جو تحریک کا سبب بنا لیکن انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ یہود دشمن ہیں۔

یاہو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں اسرائیلی اداروں کے قوانین دیکھتی ہوں جس میں اسے ایک صیہونی ریاست کہا گیا ہوتا ہے اور اس میں رہنے والے دیگر مذاہب کا ذکر نہیں کیا جاتا، اس کے باوجود ہم اسے مشرق وسطیٰ میں جمہوری ملک قرار دیتے ہیں؟ مجھے ہنسی آجاتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ایسا اگر ہم کہیں اور دیکھیں تو ہم تنقید کریں گے، جیسا کہ ایران پر بھی کرتے ہیں یا کسی بھی اور جگہ کو جو اپنے مذہب کو مقدم رکھتی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، اسرائیل اقوام متحدہ کے ادارے یونسیکو کی رکنیت سے دستبردار

دونوں مسلمان ڈیموکریٹس کی جانب سے یہ تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے فروغ اور فلسطینیوں کی امداد روکنے پر توجہ دے رہی ہے۔

دوسری جانب ریپبلکن اراکین بی ڈی ایس کی اس حمایت کو یہودیوں کے لیے خطرے اور ڈیموکریٹک اراکین کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج سے تعبیر کررہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024