پاکستان میں یمن کا ادارہ بھی کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے ملک میں کالعدم تنظیموں کی فہرست میں کیے گئے پہلے اضافے سے اس فہرست میں موجود تنظیموں کی تعداد بڑھ کر 67 ہو گئی ہے۔
اس فہرست میں حالیہ اضافہ یمن کی الرحمہ ویلفیئر ٹرسٹ آرگنائزیشن (اے آر ڈبلیو ٹی او) کا ہوا اور اسے فہرست میں شامل کرنے کی وجہ اس کا دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق بتایا گیا۔
وفاقی وزیر نے رابطہ کرنے پر ڈان کو بتایا کہ ہمیں الرحمہ ویلفیئر ٹرسٹ کے القاعدہ سے تعلقات کے بارے میں علم ہوا تھا۔
قومی محکمہ انسداد دہشت گردی کی ویب سائٹ پر جاری کردہ کالعدم جماعتوں کی فہرست کے مطابق اے آر ڈبلیو ٹی او کو 13 دسمبر 2018 میں غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔
اس فہرست میں ایک اور تنظیم جنداللہ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے جسے 31 جنوری 2018 کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، جنداللہ کا قیام عبدالمالک ریکی کی جانب سے کیا گیا تھا جنہیں گرفتار کرنے کے بعد 2010 میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: کالعدم تنظیم سے روابط پر پی پی رہنما پارٹی سے فارغ
لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد پاکستان کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں 14 اگست 2001 میں اور جیش محمد، لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ پاکستان، تحریک اسلامی اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کو اس فہرست میں 14 جنوری 2002 کو شامل کیا گیا تھا۔
تحریک جعفریہ پاکستان کو 28 جنوری 2002، القاعدہ کو 17 مارچ 2003، ملت اسلامیہ پاکستان اور خدام اسلام کو 15 نومبر 2003 اور اسلامی تحریک پاکستان کو 15 نومبر 2003 کو شامل کیا گیا تھا۔
مزید 3 تنظیموں جمعیت الانصار، جمعیت الفرقان اور حزب التحریر کو 20 نومبر 2003 اور خیر النسا انٹرنیشنل ٹرسٹ کو 27 اکتوبر 2004 کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
بلوچستان لبریشن آرمی کو 7 اپریل 2006 اور اسلامی اسٹوڈنٹس موومنٹ آف پاکستان کو 21 اگست 2006 کو فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
دیگر تنظیمیں لشکر اسلام، انصار الاسلام اور جاجی نامدار گروپ کو 4 سال کے بعد 30 جون 2008 اور تحریک طالبان پاکستان کو 25 اگست 2008 کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
بلوچستان کی 5 دہشت گرد تنظیموں، بلوچستان ریپبلکن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، لشکر بلوچستان، بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ اور بلوچستان مسلح دفاع تنظیم کو 8 ستمبر 2010 کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
گلگت کی 3 تنظیموں، شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی، مرکز سبیل آرگنائزیشن اور تنظیم نوجوان اہل سنت کے علاوہ پیپلز امن کمیٹی (لیاری، کراچی) کو 10 اکتوبر 2011 کو فہرست میں شامل کیا گیا۔
اہل سنت والجماعت پر 15 فروری 2012 کو پابندی لگائی گئی جس کے بعد الحرمین فاؤنڈیشن رابطہ ٹرسٹ کو 6 مارچ 2012 اور انجمن امامیہ، مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو 24 اپریل 2012 کو کالعدم قرار دیا گیا۔
تنظیم اہل سنت والجماعت (گلگت-بلتستان) کو 5 جون 2012 میں فہرست کا حصہ بنایا گیا جبکہ بلوچستان بنیاد پرست آرمی، تحریک نفاذ امن، تحفظ حدوداللہ، بلوچستان واجا لبریشن آرمی، اسلام مجاہدین، جیش اسلام اور بلوچستان نیشنل لبریشن آرمی کو 4 اگست 2012 میں کالعدم قرار دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پر کالعدم تنظیم کے پیجز چلانے والے 3 ملزمان گرفتار
2013 میں اس فہرست میں کئی اضافے سامنے آئے تھے جن میں 13 مارچ کو خانہ حکمت گلگت بلتستان اور 15 مارچ 2013 کو تحریک طالبان سوات، تحریک طالبان مہمنڈ، طارق جی دار گروپ، عبداللہ عاظم بریگیڈ، ایسٹ ترمنستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، اسلامک جہاد یونین، 313 بریگیڈ، تحریک طالبان باجوڑ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر (حاجی نامدار گروپ)، بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن-آزاد، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور جیئے سندھ متحدہ محاذ(جسمم) کو کالعدم قرار دیا گیا۔
اس کے بعد سے اس فہرست میں 15 جولائی 2015 تک کوئی تبدیلی سامنے نہیں آئی جب داعش کا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
گزشتہ ڈھائی سال میں اس فہرست میں یہ واحد اضافہ تھا۔
جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی کو فہرست میں 11 نومبر 2016 کو اور انصارالحسین کو 30 دسمبر 2016 کو شامل کیا گیا تھا۔
2017 میں تحریک آزادی جموں و کشمیر اس فہرست میں واحد اضافہ تھا جسے 8 جون 2017 کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔
جنداللہ اور الرحمہ ویلفیئر ٹرسٹ اس کے بعد سے واحد اضافہ تھا۔
فہرست کے مطابق جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی غلامان مصطفیٰ صحابہ اور معمار ٹرسٹ کے ساتھ ہی کڑی نگرانی جاری ہے۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 10 فروری 2019 کو شائع ہوئی