شہزادی کی انٹری سے تھائی لینڈ کی سیاست میں ہلچل
اگرچہ دنیا بھر کے متعدد ممالک کے بادشاہ اور شاہی خاندان کے افراد ملکی معاملات اور سیاست میں مداخلت نہیں کرتے، تاہم انہیں بااثر سمجھا جاتا ہے۔
جن ممالک میں اب بھی بادشاہت کا نظام رائج ہے، وہاں کے بادشاہ ریاستوں اور ممالک کے علامتی سربراہ ہوتے ہیں، تاہم ان سے حکومتی و ریاستی معاملات پر تجاویز لینا اب بھی اہم سمجھا جاتا ہے۔
بادشاہت کے نظام پر چلنے والے زیادہ تر ممالک میں شاہی خاندان کے افراد سیاست کا حصہ نہیں ہوتے، تاہم اب جنوب مشرقی ایشیائی ملک تھائی لینڈ کے شاہی خاندان کی ایک شہزادی نے سیاست میں انٹری دے دی ہے۔
سیاحت اور تفریح کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھنے والے متعدد جزائر پر مشتمل ملک تھائی لینڈ کی 67 سالہ شہزادی اوبولرتنا ماہیدول کی جانب سے سیاست میں انٹری دینے کے اعلان کے بعد ملکی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ تھائی لینڈ کے کسی شاہی فرد نے ملکی سیاست میں انٹری دینے کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل اگرچہ شاہی خاندان کو ملکی معاملات اور سیاست میں اہمیت حاصل تھی، تاہم کبھی بھی کسی شاہی فرد نے باقاعدہ طور پر سیاست میں مداخلت نہیں کی تھی۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) کے مطابق 67 سالہ شہزادی اوبولرتنا ماہیدول نے رواں برس مارچ میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرکے سب کو حیران کردیا۔
اوبولرتنا ماہیدول ملک کی اہم ترین سیاسی جماعت ’تھائی راکساچارٹ پارٹی‘ کی جانب سے وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہوں گی۔
تھائی شہزادی کے مد مقابل ملک کے حالیہ وزیر اعظم اور2014 میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے سابق فوجی سربراہ پریوتھ چینوچا ہوں گے، جنہیں اب بھی فوج اور سیاسی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔
تھائی شہزادی کی جانب سے سیاست میں اصولی طور پر انٹری دینے کے اعلان کے بعد ملک بھر میں چہ مگوئیاں ہو گئی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر شہزادی کے خلاف کوئی رہنما انتخاب ہی نہیں لڑ پائے گا، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
دوسری جانب ’تھائی راکساچارٹ پارٹی‘ نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں شہزادی اوبولرتنا ہی ان کی جانب سے وزیر اعظم کی امیدوار ہوں گی۔
پارٹی کے مطابق انہیں شہزادی سے زیادہ سمجھدار، سیاسی شعور رکھنے والا، عوام میں مقبول اور تعلیم یافتہ امیدوار نہیں ملا۔
تھائی شہزادی اوبولرتنا کی جانب سے عام انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد ملک کے بادشاہ اور شہزادی کے چھوٹے بھائی 64 سالہ ماہا وجیرالونگ کورن نے بھی خاموشی توڑتے ہوئے بہن کے فیصلے کو مسترد کیا ہے۔
اگرچہ تھائی بادشاہ ماہا وجیرالونگ کورن شہزادی کے اعلان کے بعد کچھ دن تک خاموش رہے تھے، تاہم ملک بھر میں سیاسی چہ مگوئیاں بڑھ جانے کے بعد انہوں نے بہن کی جانب سے سیاست میں انٹری دینے کے فیصلے کو مسترد کیا ہے۔
تھائی لینڈ کی مقامی میڈیا میں شائع ہونے والے بادشاہ کے بیان کے مطابق وجی رالونگ کورن نے شاہی فرد کی سیاست میں انٹری کے فیصلے کو غیر اصولی قرار دیا۔
وجی رالونگ کورن کا اپنے مختصر بیان میں کہنا تھا کہ شاہی خاندان کے کسی فرد کو سیاست میں انٹری دینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
تھائی بادشاہ نے اپنی بڑی بہن کے سیاسی فیصلے کو آئین کے خلاف بھی قرار دیا۔
بادشاہ ماہا وجیرالونگ کورن کا کہنا تھا کہ شہزادی اوبولرتنا کی جانب سے سیاست میں انٹری کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے۔
بادشاہ کے بیان کے بعد تاحال شہزادی اوبولرتنا نے کوئی بیان نہیں دیا، تاہم ملک بھر میں انتخابات سے قبل ہی ہلچل مچ گئی ہے۔ شہزادی اوبولرتنا 1951 میں پیدا ہوئی تھیں اور انہوں نے بیرون ممالک میں تعلیم حاصل کی۔
انہیں شاہی خاندان کی سب سے رنگین مزاج شخصیت بھی مانا جاتا ہے۔
شہزادی اوبولرتنا کو شاہی روایات کے خلاف اور عوامی امنگوں کے مطابق کام اور خدمات سر انجام دینے کا سہرا بھی جاتا ہے۔
سیاست میں آنے سے قبل انہوں نے اداکاری میں بھی قسمت آزمائی کی اور متعدد فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں شاندار کردار ادا کیے۔
رنگین مزاج طبعیت کے باعث ہی انہوں نے 1972 میں شاہی اعزازات کو ٹھکرا کر امریکی شخص سے شادی کی اور مستقل طور پر امریکا منتقل ہوگئیں۔
تاہم 1998 میں شہزادی کی طلاق ہوگئی اور وہ امریکا چھوڑ کر واپس تھائی لینڈ منتقل ہوگئیں۔
شہزادی اوبولرتنا نے عدالتی احکامات کے بعد شاہی اعزاز حاصل کیا اور بطور شاہی فرد خدمات سر انجام دینے لگیں اور انہیں شاہی لقب بھی دیے گئے۔
شہزادی اوبولرتنا کو تین بچے ہوئے جن میں سے ایک بچہ سونامی طوفان میں ہلاک ہوگیا جب کہ باقی 2 بچے اپنے والد کے ہمراہ امریکا میں رہائش پذیر ہیں۔