ڈالر کی بلندی اور پیسے کی بے قدری، کس کس پر پڑی بھاری؟
مخدوم الہٰی طارق روڈ کے قریب واقع دوپٹہ گلی میں جیولری کی دکان چلاتے ہیں۔ الہٰی خاندان نسل در نسل سے دیدہ زیب سونے کے زیورات بنانے کے کام سے وابستہ کاریگر ہیں۔ دہلی سے ہجرت کرکے کراچی آنے والے ان کاریگروں کے مطابق وہ یہ کام مغل دور سے کررہے ہیں۔ تاہم جو ہنر کسی دور میں ان کی بنیادی آمدن کا ذریعہ تھا آج سونے کی بڑھتی قیمت اور حالیہ ڈالر کی غیر مستحکم قیمتوں کی وجہ سے گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہوگیا ہے۔
40 برسوں سے اپنے خاندانی کام سے وابستہ مخدوم الہٰی کہتے ہیں کہ ’ڈالر کی اس قدر تیزی سے قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے ہمارا کاروبار شدید متاثر ہوا ہے۔ چونکہ ہمیں اب زیادہ کام کرنے کو نہیں ملتا اس لیے ہم 2 سے 4 دیگر ملازمتیں بھی کر رہے ہیں۔ کئی ساری جیولری شاپ بند ہو رہی ہیں اور کاروبار بہت ہی سُست ہوگیا ہے۔‘
گزشتہ برس نومبر میں ڈالر کی قیمت 11 روپے اضافے کے ساتھ اب تک کے سب سے زیادہ اضافے کے ساتھ 144 روپے تک پہنچ گئی تھی۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے مقامی کاروبار، بیرون ملک مقیم طلبا اور سیاحوں کو روزانہ کی زندگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
کراچی میں مقیم 34 سالہ بزنس مین محمد سلمان ہوم کیئر، ری ہیبیلیٹیشن اور میڈیکل آلات کی درآمد کے حوالے سے کافی مہارت رکھتے ہیں، وہ ان آلات کو یہاں ہول سیلرز اور ہسپتالوں کو فروخت کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گزشتہ برس جب سے روپے کی قدر گھٹنا شروع ہوئی تب سے انہیں اپنے کاروبار میں 33 فیصد کا نقصان ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’بطور درآمدکار، ہم سالانہ منافع کے اعتبار سے کاروبار کرتے ہیں۔ روپے کی قدر گرنے سے بغیر کسی نوٹس کے مصنوعات کی قیمت بڑھ گئیں جس کے سبب ہم اپنے آرڈرز نہیں منگوا سکتے اور یوں ہمیں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔‘
الہٰی خاندان نے کرایہ ادا کرنے کی استطاعت ختم ہوجانے کی وجہ سے 3 ماہ قبل اپنی طارق روڈ والی دکان کو مین روڈ پر منتقل کیا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ جیولری کے کاروبار میں دکان کی مینٹیننس اور ملازمین کی اجرت کی صورت اخراجات منافع سے زیادہ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ الہٰی کہتے ہیں کہ ’گزشتہ چند مہینوں سے ان اخراجات میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے اور صرف کرایے میں ہی 10 سے 12 ہزار کا فرق آگیا ہے۔‘
مخدوم الہٰی کے بیٹے منصور الہٰی دکان پر کل وقتی کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کاروبار کو ایسی سمت میں لے جائیں جہاں ہمارے اخراجات کم ہوسکیں۔ اس وقت تو اس کام میں زیادہ منافع نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ مستقبل میں ہم کسی دوسرے کام کی تلاش کریں کیونکہ اب اس کام کے ذریعے کسی بھی شخص کے لیے گھر چلانا ممکن نہیں رہا۔‘
تاہم ایسا کہنا آسان ہے لیکن کرنا بہت مشکل۔ جیسا کہ مخدوم الہٰی کہتے ہیں کہ ‘ہم یہ کام دادا کے زمانے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ میں اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرسکتا۔‘
جہاں تجزیہ نگاروں کے اندازوں کے مطابق روپے کی قدر گرنے اور حکومت کی زبانی حمایت یافتہ پیش قدمی سے سے ممکن ہے کہ برآمدات کو فروغ حاصل ہو لیکن پاکستان شماریات بیورو کے نومبر 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق برآمدات میں 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی کمی آئی۔
28 سالہ عادل سیٹھی سیالکوٹ میں واقع چمڑا گارمینٹس برآمد کرنے والی کمپنی سے وابستہ ہیں۔ پہلے وہ چمڑے گارمینٹس کو درآمد بھی کیا کرتے تھے لیکن اب نہیں کرتے۔ تاہم اپنے گارمینٹس کی ٹیلرنگ کے لیے مطلوبہ بٹن اور زپ اب بھی باہر سے منگواتے ہیں۔
عادل نے کسی غیرمعمولی مشکل کے بغیر اپنی مصنوعات کی برآمدگی کو جاری رکھا ہوا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ کمپنی کے منافع کی اوسط ملی جلی نوعیت کی ہے اور گاہک اکثر پراڈکٹس کی اضافی قیمتیں قبول نہیں کرتے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’مثلاً، جہاں پہلے ایک گارمینٹ پر ہمارا مینوفیکچرنگ خرچہ 3 ہزار روپے آتا تھا اور ہم 40 ڈالر کی قیمت پر برآمد کرتے تھے، وہیں اب اسی گارمینٹ پر ہمارا خرچہ 3 ہزار 600 روپے آتا ہے کیونکہ درآمدکاروں سے ملنے والے بٹن اور زپ مہنگے ہوجانے کی وجہ سے مینوفیکچرنگ خرچے میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم اپنے گاہکوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم 45 ڈالرز تک کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو گاہک یہ قیمت قبول ہی نہیں کرنا چاہتا جبکہ دوسری طرف ہم پرانی قیمت پر منافع حاصل نہیں کرسکتے۔‘
جہاں برآمدکاروں نے بلاشبہ ڈالر کی اضافی شرح سے فائدہ حاصل کیا ہے وہیں سیٹھی جیسے برآمدکاروں کو ان کی مصنوعات میں استعمال ہونے والی درآمد شدہ سامان پر انحصار کی وجہ سے ملے جلے نتائج کا سامنا ہے۔ پاکستان میں کئی دیگر مقامی سطح کے کاروبار باہر سے لائے جانے والے خام مال یا تیار شدہ مٹیریل سے جڑے ہیں۔
بزنس مین سلمان کہتے ہیں کہ ’ڈالر کی قیمت میں عدم استحکام سے خاص طور پر درآمدکار متاثر ہوئے ہیں کیونکہ درآمدات کے آرڈرز مہینوں پہلے ہی دے دیے جاتے ہیں۔‘
علاوہ ازیں، کرنسی چاہے کتنی ہی اوپر نیچے ہو یا روپے کی قدر میں کتنی ہی کمی آئے اگلے سال سے حکومتی ٹینڈرز میں ایک مستقل قیمتِ فروخت کی شرط شامل ہوگی۔
سلمان کہتے ہیں کہ ’کُل باتوں کی ایک بات، پاکستان درآمدات پر مںحصر ملک ہے۔ ہمارے پاس برآمدات سے زیادہ درآمدات ہوتی ہے۔ لہٰذا جب بھی روپے کی قدر تبدیل ہو، مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اس سے پہلا شخص جو متاثر ہوتا ہے وہ ہے صارف، کیونکہ اسے جن چیزوں کی خریداری کرنی ہے وہ بہت زیادہ مہنگی ہوگئی ہیں اور یوں مہنگے داموں خریداری کے سبب اس کا ماہانہ بجٹ بھی بڑھ جاتا ہے۔‘
روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے صرف مقامی کاروبار ہی متاثر نہیں ہوا۔ مقامی پرواز کی قیمتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، اور بیرونِ ملک سفر کرنے والوں کو ایکسچینج ریٹ میں آنے والے زبردست فرق کی وجہ سے ہوٹل اور دیگر اخراجات بھی بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ ۔
31 سالہ احمد جاوید حال ہی میں ترکی کا سفر کرکے لوٹے ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) سے بطور پائیلٹ وابستہ احمد جاوید نہ صرف کام کے سلسلے میں بلکہ سیاحت کے غرض سے بھی سفر کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایکسچینج ریٹ کی وجہ سے انہیں اپنے سفری بجٹ میں کٹوتی کرنی پڑگئی۔‘
جاوید کہتے ہیں کہ ’میں نے (ترکی میں) سستے ہوٹل میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ اگر ایکسچینج ریٹ پہلے جیسا ہوتا تو میں شاید کسی بہتر ہوٹل میں ٹھہرتا۔‘
جاوید کے مطابق ’وہ جن غیر ملکی سفروں کی پلاننگ مہینوں پہلے سے کر رہے تھے وہ بھی مہنگائی کی وجہ سے متاثر ہوگئے ہیں۔‘
جاوید نے بتایا کہ ’اگر میرا ویزا لگ جاتا ہے تو میں اگلے ماہ فرانس جاؤں گا، جہاں میں لیون نامی شہر میں منعقدہ ٹومورو لینڈ میوزک فیسٹیول میں شرکت کروں گا۔ میں نے کئی ماہ قبل اس وقت ٹکٹ بک کروائی تھی جب ڈالر کی قیمت تقریباً 115 روپے تھی۔ میں نے اپنے دوست کو ٹکٹ لانے کو کہا۔ حال ہی میں جب وہ پاکستان آیا اور جب پیسے ادا کرنے کا وقت آیا تو مجھے ڈالر کی قیمت میں آنے والا فرق بھی ادا کرنا پڑا۔‘
اس کے علاوہ ایک دوسرا طبقہ جو روپے کی قدر میں کمی سے متاثر ہوا ہے وہ ہے بیرون ملک زیرِ تعلیم طلبا اور ان کے ساتھ ان کے گھر والے جو انہیں پاکستان سے ٹیوشن اور دیگر اخراجات کے لیے پیسے بھیجتے ہیں۔
18 سالہ ایمان جعفری کو جون میں کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا تاہم ایمان کو جب معلوم ہوا کہ ان کے گھر والے ان کے تعلیمی اخراجات نہیں اٹھا سکتے تو انہوں نے کینیڈا نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ ایمان کہتی ہیں کہ ’اگر میں کینیڈا گئی تو میری والدہ کو تعلیمی و دیگر اخراجات ڈالرز میں ادا کرنے ہوں گے جبکہ وہ روپے میں کماتی ہیں اور چونکہ بطور ایک اسکرین رائٹر ان کے پاس ایک مستقل آمدن نہیں اس لیے وہ میرے تعلیمی اخراجات نہیں اٹھاسکتیں۔‘
ایمان اب کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔ انہیں کسی قسم کا پچھتاوا تو نہیں ہے البتہ ان کی اپنی بہن سے ملنے کی خواہش ادھوری رہ گئی جو گزشتہ 3 برس سے کینیڈا میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
ایمان ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’زندگی کی یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ میں نے سوچا کہ میں اپنی بہن کے ساتھ رہنے اور پڑھنے جاؤں گی، جو میری ہمیشہ سے خواہش تھی۔‘
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ایمان کی بہن جو کینیڈا اور ان کے بھائی جو پراگ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان دونوں کو بھی مالی مشکلات کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے اہل خانہ کو ان دونوں کے درمیان پیسوں کی تقسیم میں جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔
ایمان کہتی ہیں کہ ’ہماری نظر مسلسل ڈالر پر رہتی ہے، کیا قیمت میں کمی ہوئی، کیا قیمت میں اضافہ ہوا؟ اور مستقل آمدن نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ویسے ہی بہت زیادہ مالی منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں یہ تک معلوم نہیں کہ آیا اگلے لمحے ہمارے پاس کھانے یا اپنے خرچے کے لیے مناسب پیسے ہوں گے بھی یا نہیں۔ ہمیں خرچوں میں مزید کتنی کٹوتی کرنی ہے؟ ہم جو بھی کریں گے اس کا اثر میرے بھائی کو ملنے والے پیسوں پر پڑے گا جبکہ میرے بھائی کے خرچے کا اثر ہمیں پڑے گا۔ یہ بالکل ایک سائیکل کی طرح ہے۔‘
ایمان مزید کہتی ہیں کہ ’اس بار ہمیں اپنے رشتہ داروں کو بھی ان اخراجات میں حصہ ڈالنے کے لیے کہنا پڑا اور اس کے بعد ہمیں ایک بار پھر پیسے جمع کرنے ہوں گے۔ ہر کچھ ماہ بعد ٹیوشن فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ ہمیں (میری والدہ کو) ٹیوشن کے لیے 3 لاکھ روپے ادا کرنے ہوتے تھے لیکن ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد اب 4 لاکھ روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔‘
دوسری طرف بیرونِ ملک زیرِ تعلیم طلبا کو دیگر متعدد مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ان میں سے اکثر تو پاکستان سے بھیجے جانے والے پیسوں پر منحصر رہنے کے بجائے اپنے مالی بوجھ کو اٹھانے کے لیے مختلف ملازمتیں کر رہے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ عثمان بیلیجیم میں ایم بی اے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ اپنے فارغ وقت میں اضافی پیسے بنانے کے لیے ریسٹورنٹ ڈیلیوری کا کام کرتے ہیں۔ ایک ہی سال کے اندر انہوں نے یورو کی قیمت کی میں زبردست اضافہ دیکھا۔
عثمان کہتے ہیں کہ ’جب میں یہاں پہلی مرتبہ آیا تو یورو کی ٹریڈنگ 120 روپے پر ہو رہی تھی۔ اس وقت فیس کی ادائیگی اور ٹکٹ کی خریداری میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی ہے لیکن اب یورو کی قیمت تقریباً 158 تک جا پہنچی ہے، یعنی 30 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ پہلے میں کھانے وغیرہ پر آنے والے اخراجات کے لیے والدین سے ماہانہ الاؤنس کے طور پر پیسے منگواتا تھا، لیکن جیسے ہی روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی اور یورو کی قیمت بلندی کو چھوتی ہے تو آپ کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ کے پاس اخراجات کے مقابلے میں پیسے کم ہیں۔‘
عثمان نے بتایا کہ ان کی کمپنی ڈیلیوری پر مامور افراد کو کچھ خاص اپنا ملازم نہیں سمجھتی بلکہ ایپلیکشن استعمال کرنے والوں کے طور پر دیکھتی ہے۔ کمپنی ڈیلیوری کرنے والے افراد کو مخصوص وقت میں ڈیلیوری کا مخصوص کوٹہ مکمل کرنے پر ہی اسے گھنٹے کے حساب سے پیسے ادا کرتی ہے۔ ان کی کمپنی میں کام کرنے والے زیادہ تر افراد تاریکین وطن، پناہ گزین اور غیر یورپی طلبا ہیں۔
اگرچہ عثمان تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ملازمت رسکی ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ گھر سے پیسے منگوانے سے بہتر آپشن ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’کرایہ و دیگر خرچے اب بڑی حد تک اس ملازمت پر ہی منحصر ہیں۔ ایکسچینج ریٹ میں زبردست فرق آجانے کی وجہ سے اپنے والدین سے پیسہ منگوانا اب آخری آپشن بن جاتا ہے۔
یہ مضمون 3 فروری 2019ء کو ڈان اخبار کے میگزین ای او ایس میں شائع ہوا