پاکستان کرکٹ بورڈ کا درست فیصلہ
پاکستان کرکٹ ٹیم کو حال ہی میں جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی گئی ایک روزہ سیریز میں ایک سخت اور دلچسپ مقابلے کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سیریز کے دوران کھیلے گئے 5 مقابلوں میں سے جنوبی افریقہ نے 3 جبکہ پاکستان نے 2 میچوں میں کامیابی حاصل کی۔
دونوں ٹیمیں اس سیریز کو چند مہینے بعد منعقد ہونے والے عالمی کپ کی تیاری کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جنوبی افریقہ کی ٹیم اس سیریز میں اپنی بینچ کی طاقت کا بہتر طور پر اندازہ لگانے میں کامیاب رہی ہے۔ ان کی طرف سے ایک روزہ کیریئر کا آغاز کرنے والے تینوں ہی کھلاڑیوں نے سیریز میں ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری طرف پاکستان کی طرف سے حسین طلعت نے اپنے ایک روزہ کیریئر کا آغاز کیا لیکن وہ بیٹنگ اور باؤلنگ کسی بھی شعبے میں کوئی خاطر خواہ تاثر نہیں دے سکے۔ جنوبی افریقہ کے دورے میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچوں میں تسلی بخش کارکردگی پیش کرنے کے بعد اس بات کی قوی امید تھی کہ شان مسعود کو اس ایک روزہ سیریز کے دوران اپنے کیریئر کے آغاز کا موقع دیا جائے گا۔ شان مسعود نے ڈومیسٹک کرکٹ اور پاکستان کی اے ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے 87 ایک روزہ میچوں میں 56.52 کی اوسط سے رنز بنائے ہیں۔ یہ رنز انہوں نے 82.54 کے شاندار اسٹرائیک ریٹ سے حاصل کیے ہیں۔ کھلاڑی میں اعتماد بڑھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کو صرف دورے پر ہی نہیں لے جایا جائے بلکہ ٹیم میں کھیلنے کا موقع بھی فراہم کیا جائے۔
اس سیریز کے دوران فخر زمان کی خراب فارم اور مڈل آرڈر بیٹنگ کی کمزوری کے تناظر میں شان مسعود کو ایک موقع ضرور دینا چاہیے تھا۔پاکستان کو میرے خیال میں بلے بازی کے شعبے میں مسائل کا سامنا ہے لیکن سیریز کے دوران ٹیم منجمنٹ نے کسی بھی نئے بلے باز کو نہیں آزمایا اور بیٹنگ کے شعبے میں متعدد ناکامیوں کے باوجود بیٹنگ لائن میں تبدیلی نہ کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
پاکستان کے کپتان سرفراز احمد پر جنوبی افریقہ کے کھلاڑی ایندائل فلکوایو پر نسل پرستانہ جملہ کسنے پر 4 میچوں کی پابندی لگ گئی تھی لیکن اب وہ اپنی پابندی کی مدت پوری چکے ہیں، سرفراز کی پابندی کی مدت کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کے متضاد بیان کی وجہ سے کرکٹ کے حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ شاید کرکٹ بورڈ کپتان کی تبدیلی کے بارے میں سوچ رہا ہے لیکن گزشتہ روز کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نے درست فیصلہ کرتے ہوئے ان کو عالمی کپ تک کپتان نامزد کیا اور یوں انہوں نے عالمی ایونٹ میں کپتان بننے کے لیے جاری رسہ کشی کو ختم کردیا۔
کرکٹ بورڈ ماضی میں بھی خاص طور سے 80ء اور 90ء کی دہائی میں بروقت فیصلہ نہیں کرپانے کی وجہ سے کھلاڑیوں کے دباؤ کا شکار ہوچکا ہے اور کھلاڑیوں کے اس دباؤ کی وجہ سے بورڈ کو کپتان بھی تبدیل کرنا پڑے۔ موجودہ صورتحال میں سرفراز احمد ہی کپتانی کے لیے سب سے موزوں کھلاڑی ہیں۔ سرفراز احمد پاکستان کی تاریخ کے پہلے کھلاڑی ہوں گے جن کو عالمی کپ ٹورنامنٹ میں پاکستان کی انڈر 19 کرکٹ ٹیم اور پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کا اعزاز حاصل ہوگا۔
ویسے کپتان سرفراز احمد اور موجودہ چیئرمین احسان مانی کے ستارے بہت ملتے ہیں۔ 2006ء میں جب پاکستان نے سرفراز احمد کی قیادت میں روایتی حریف بھارت کو شکست دے کر انڈر 19 کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا تو اس وقت احسان مانی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے صدر تھے اور انہوں نے ہی جیتنے والے کپتان کو ٹرافی پیش کی تھی۔ آج کل وہی احسان مانی پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیئرمین ہیں۔ کیا سرفراز احمد اور احسان مانی کا یہ کامبینیشن پاکستان کے لیے عالمی کپ میں خوش نصیبی کا پیغام لے کر آ سکتا ہے؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
سرفراز احمد کی عدم دستیابی کے باعث کپتانی کرنے والے کھلاڑی شعیب ملک حالانکہ ایک تجربہ کار کھلاڑی ہیں جو 20 سال سے زائد عرصے سے بین الاقوامی کرکٹ کھیل رہے ہیں اور انہیں ماضی میں بھی پاکستان کی کپتانی کا اعزاز حاصل رہا ہے، لیکن آج کل شعیب ملک بلے بازی کے شعبے میں تسلی بخش کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں۔ جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی گئی حالیہ سیریز میں شعیب ملک 4 اننگز میں صرف 83 رنز ہی اسکور کرسکے۔ ان کی باؤلنگ میں بھی اب دم نہیں رہا اور حالیہ میچوں میں وہ شاذ و نادر ہی باؤلنگ کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ شعیب ملک کا 2 سال پر محیط کپتانی کا دور 2009ء میں کوچ اور منیجر کی ان کے بارے میں پیش کی گئی منفی رپورٹ کے باعث اختتام پذیر ہوا۔
پاکستان کے 2010ء کے دورہ آسٹریلیا سے واپسی کے بعد کرکٹ بورڈ نے کچھ کھلاڑیوں پر انضباطی کارروائی کرتے ہوئے جرمانہ اور پابندی عائد کی اور شعیب ملک بھی پابندی کی زد میں آنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل تھے لیکن کچھ عرصے بعد کرکٹ بورڈ نے خود ہی کھلاڑیوں پر عائد پابندی ختم کردی۔ چند سال کرکٹ ٹیم کے اندر اور باہر رہنے کے بعد شعیب ملک 2015ء سے پاکستان کی ایک روزہ ٹیم کا مسلسل حصہ ہیں۔ شعیب ملک کی خواہش ہے کہ وہ 2019ء کا عالمی کپ کھیل کر کرکٹ کے تمام فارمیٹس سے ریٹائرمنٹ لے لیں، لیکن یہاں پاکستان کی سلیکشن کمیٹی اور ٹیم منجمنٹ کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ خراب بیٹنگ فارم کے باوجود شعیب ملک کو عالمی کپ کے لیے پاکستان ٹیم میں شامل کرنا کہیں ٹیم کے لیے نقصان کا سبب نہیں بنے گا۔
پاکستان کے ایک اور تجربہ کار کھلاڑی محمد حفیظ ہیں جنہوں نے جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی گئی سیریز کے دوران 2 نصف سنچریاں تو ضرور اسکور کیں لیکن انہوں نے دونوں مرتبہ بڑی اننگز اس وقت کھیلی جب ٹیم کو ایک اچھا اسٹارٹ مل چکا تھا۔ سیریز کے دوسرے اور 5ویں میچ میں جب ابتدائی وکٹیں جلد گرگئیں تو محمد حفیظ بھی جلد ہی آؤٹ ہوگئے۔ شعیب ملک اور محمد حفیظ ایک طویل عرصے سے قومی ٹیم کے ساتھ منسلک ہیں لیکن آج بھی یہ کھلاڑی تسلسل کے ساتھ ٹیم کی کامیابیوں میں کردار ادا نہیں کرپاتے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ عالمی کپ کے لیے جب بھی ٹیم کا انتخاب کریں تو حفیظ اور شعیب ملک میں سے کسی ایک کھلاڑی کا انتخاب کریں۔
دورہ جنوبی افریقہ کے دوران نوجوان فاسٹ باؤلر شاہین آفریدی نے اپنی کارکردگی سے کرکٹ کے تمام ہی ناقدین اور تجزیہ کاروں کو متاثر کیا۔ یہ طویل قامت فاسٹ باؤلر صرف 18 سال کی عمر میں اپنی شاندار کارکردگی سے سب کو متاثر کر رہا ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ شاہین آفریدی پاکستان سپر لیگ کی دریافت ہیں اور امید ہے کہ مستقبل میں ہمیں دیگر کھلاڑی مل سکیں گے۔
شاہین آفریدی پاکستان کو عالمی کپ میں کامیابی دلوانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ٹیم منجمنٹ کو چاہیے کہ وہ ان کا خیال رکھے اور ان کو کم کم میچ ہی کھلائے تاکہ ان کی فٹنس برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ وہ مخالفین کے لیے ایک سرپرائز کے طور پر سامنے آئیں۔
کرکٹ بورڈ نے سرفراز احمد کو کپتان نامزد کرکے درست سمت کی طرف اقدام اُٹھا لیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کپتان سرفراز احمد، کوچ مکی آرتھر اور ٹیم منجمنٹ سے منسلک تمام افراد بشمول سلیکشن کمیٹی آج سے ہی اپنے ممکنہ کھلاڑیوں کی فہرست تیار کرنا شروع کردیں اور پاکستان سپر لیگ اور اس کے بعد کھیلی جانے والی 2 ایک روزہ میچوں کی سیریز کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک ایسی ٹیم ترتیب دیں جو اپنی کارکردگی سے ملک کا نام روشن کرسکے۔
پاکستان کی بلے بازی کا ایک اہم ستون بابر اعظم ہیں۔ جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی جانے والی حالیہ سیریز میں بھی بابر اعظم نے پاکستان کی بیٹنگ کو بڑی خوش اسلوبی سے سہارا دیا لیکن سیریز کے دوران متعدد مواقع پر سیٹ ہو جانے کے بعد ان کا آؤٹ ہونا ٹیم کے لیے نقصان کا باعث بنا۔ اس سیریز میں بابر اعظم کا ایک اننگز میں سب سے زیادہ اسکور 69 رنز رہا اور یہ بابر اعظم کے معیار کے کھلاڑی کے لیے غیر تسلی بخش کارکردگی ہے۔
پاکستان کا باؤلنگ شعبہ فی الحال متوازن نظر آ رہا ہے لیکن ابھی بھی چند خامیوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ انگلینڈ کے ماحول اور پچ پر 2 اسپنرز کو کھلانا شاید اتنا سودمند نہ ہو اس لیے ٹیم منجمنٹ کو چاہیے کہ ابھی سے فیصلہ کرلے کہ شاداب خان اور عماد وسیم میں سے ان کی اولین پسند کون سا باؤلر ہے۔ جب بھی عالمی کپ کے لیے ٹیم کا انتخاب کیا جائے گا تو اس بات کو مد نظر رکھیں کہ ٹورنامنٹ کے ابتدائی مقابلوں میں انگلستان کی موسمی صورتحال اور پچ کے تناظر میں ان دونوں کو ایک ساتھ کھلانے سے ٹیم کا توازن بگڑے گا۔
اس صورتحال میں ٹیم منجمنٹ کو ہر میچ سے قبل بروقت اور درست فیصلہ کرنا ہوگا۔ جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے حالیہ ایک روزہ مقابلوں میں باؤلنگ بھی عدم تسلسل کا شکار رہی۔ سوائے نوجوان شاہین آفریدی کے کوئی بھی باؤلر تسلسل کے ساتھ کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ عثمان شنواری اگر ایک میچ میں اچھی باؤلنگ کرتے ہیں تو اس سے اگلے میں نہایت ناقص کارکردگی پیش کرتے ہیں۔ ان کو نو بال کروانے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ جس طرح کے مسائل عثمان شنواری کو درپیش ہیں، ویسے ہی مسائل کی وجہ سے وہاب ریاض ٹیم میں اپنی جگہ کھوچکے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں کیا عثمان شنواری ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھ سکیں گے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
پاکستان کو عالمی کپ سے قبل ایک یا 2 آل راؤنڈرز کی بھی ضرورت ہے جو بوقت ضرورت طویل اننگز بھی کھیل سکیں اور اختتامی اوورز میں تیز رفتار بیٹنگ بھی کرسکیں۔ اس تناظر میں ڈومیسٹک کرکٹ میں موجود کھلاڑی عامر یامین کو موقع دیا جائے تو ٹیم کے لیے ایک اچھا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ حسن علی میں بھی ٹیلنٹ موجود ہے اور ٹیم منجمنٹ ان کو بھی عالمی کپ سے پہلے ہونے والے مقابلوں میں تسلسل کے ساتھ چھٹے یا ساتویں نمبر پر کھلا کر ایک آل راؤنڈر کے طور پر تیار کرسکتی ہے۔
عالمی کپ سے قبل، پاکستان سپر لیگ کا چوتھا ایڈیشن منعقد ہوگا جس کے بعد پاکستان کو آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف 5، 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلنی ہے۔ ان مقابلوں میں ٹیم منجمنٹ کو تمام ممکنہ کھلاڑیوں کی کارکردگی جانچنے کا موقع ملے گا اور میگا ایونٹ کے لیے درست ٹیم کا انتخاب کرنے میں یہ میچز کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
کرکٹ کے ایک معروف کمنٹیٹر ہرشا بھوگلے نے اپنے تجربے کی بنیاد پر پاکستان کی ٹیم کا انتخاب کیا ہے۔
ہرشا بھوگلے کی منتخب کردہ اس ٹیم میں اور پاکستان کی حتمی ٹیم میں شاید ایک یا 2 کھلاڑیوں کا ہی فرق ہو۔
دنیا کی تمام کرکٹ ٹیمیں عالمی کپ کے لیے اپنی تیاریوں کو حتمی شکل دے چکی ہیں۔ اب پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھی چاہیے کہ وہ پوری توجہ کے ساتھ عالمی کپ کی تیاری کرے تاکہ کھلاڑی پورے فوکس کے ساتھ اس عالمی کپ میں شرکت کریں اور اپنی کارکردگی سے ملک کا نام روشن کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں