’افغانستان میں امن کیلئے طالبان سمیت دیگر گروہوں سے بھی مذاکرات کررہے ہیں‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسرے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اپنی قوم کو آگاہ کیا کہ ان کی حکومت افغانستان میں طالبان کے ساتھ ساتھ دیگر گروپس کے ساتھ بھی مذاکرات کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم ان مذاکرات میں پیش رفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اپنے فوجیوں کی تعداد کم کرنے کے قابل ہوں گے اور انسداِ دہشت گردی پر توجہ دیں گے۔
واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جب امریکی صدر نے بتایا ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ ساتھ دیگر گروپس کے ساتھ بھی مذاکرات کررہے ہیں تاہم انہوں نے ان گروہوں کے نام نہیں بتائے۔
یہ بھی پڑھیں: شام اور افغانستان سے فوجی انخلا کا منصوبہ امریکی سینیٹ میں مسترد
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ ہم ان مذاکرات میں کوئی سمجھوتہ کر پاتے ہیں یا نہیں لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ 2 دہائیوں کے بعد اب وہ وقت آگیا ہے جب امن کے لیے کم از کم کوشش کرلی جائے‘۔
اپنے خطاب میں امریکی صدر نے ملکی سیاست میں تلخیوں سے آگاہی کے باوجود زیادہ تر توجہ خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پر مرکوز رکھی اور افغانستان اور شام سے فوجی انخلا کا عزم دہرایا، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری، روس کے ساتھ میزائل معاہدے کے خاتمے اور شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن کے ساتھ مذاکرات کرنے کی تعریف کی۔
فوجیوں کی واپسی پر زور دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہماری بہادر افواج مشرق وسطیٰ میں کم از کم 19 سال سے لڑرہی ہیں، افغانستان اور عراق میں 7 ہزار کے قریب امریکی فوجی اپنی جان دے چکے ہیں، 52 ہزار سے زائد امریکی فوجی شدید زخمی ہوئے اور مجموعی طور پر ہم 70 کھرب ڈالر سے زائد رقم مشرق وسطیٰ میں خرچ کرچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: صدر ڈونلڈ ٹرمپ طویل جنگوں سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں، مائیک پومپیو
انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکا نے عراق اور شام میں 20 ہزار سے میل سے زائد علاقہ آزاد کروایا جس پر داعش کا قبضہ تھا اور اب وقت ہے کہ ہم شام میں موجود اپنے فوجیوں کو گھر میں خوش آمدید کہیں۔
تاہم اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان میں فتح کا دعویٰ کرنے کے بجائے دوحہ اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والے امریکا طالبان مذاکرات کا ذکر کیا۔
امریکی صدر، جنہیں تقسیم شدہ کانگریس کا سامنا ہے، نے انتقامی سیاست کو مسترد کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور ڈیموکریٹس اراکین سے ان کے خلاف 2016 کے انتخابات کے دوران روس کے ساتھ مبینہ معاہدے کی جاری ’مضحکہ خیز تحقیقات‘ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن عارضی طور پر ختم
ٹرمپ کے خطاب کا محور امریکی حکومت کا 35 روز تک جاری رہنے والا شٹ ڈاؤن کی وجہ بننے والا معاملہ یعنی امریکا اور میکسکو کی سرحدی دیوار تھا۔