’مستحکم ہونے کے باوجود طالبان امریکا سے مذاکرات کر رہے ہیں‘
کراچی: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کے ماہر احمد راشد کا کہنا تھا کہ طالبان، افغانستان میں حکومت کے مقابلے میں زیادہ حصے پر قابض ہیں اور وہ مستحکم ہونے کے باوجود امریکا سے مذاکرات کر رہے ہیں۔
گورنر ہاؤس سندھ میں ادب فیسٹیول میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اہم بات یہ ہے کہ طالبان نے ایسا امریکا ڈھونڈ لیا ہے جو بات کرنا چاہتا ہے، ماضی میں رچرڈ ہالبروک سمیت دیگر امریکی سفیروں نے بھی اس کی کوشش کی تھی تاہم انہیں امریکی صدر اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل نہیں تھی، اب طالبان کو معلوم ہوا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فوجی انخلا کے لیے پر عزم ہیں اور یہ ان کا انتخابی مہم میں کیا گیا وعدہ بھی تھا‘۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کا افغانستان، شام سے واپسی مگر عراق میں فوج رکھنے کا عزم
فیسٹیول میں ’احمد راشد سے مکالمہ‘ کے نام سے ہونے والے سیشن میں خارجہ پالیسی کے ماہر سے افغان امن مرحلے کے حوالے سے سوالات کیے گئے۔
سیشن کے میزبان صحافی زاہد حسین نے سوال کیا کہ ’میں جاننا چاہتا ہوں ٹرمپ انتظامیہ کیوں یہ معاملہ سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہوئی جبکہ افغانستان سے رپورٹس مل رہی ہیں کہ طالبان مزید طاقتور ہورہے ہیں اور 55 فیصد افغان سر زمین ان کے قبضے میں ہے، طالبان کو مذاکرات پر کس چیز نے آمادہ کیا اور کابل حکومت سے کسی قسم کی بات چیت نہ کرنے سے انکار کیوں، کیا گیا آپ کو لگتا ہے کہ طالبان مستحکم ہونے کی وجہ سے بات کرنے پر راضی ہوئے‘۔
احمد راشد کا کہنا تھا کہ ’طالبان کو معلوم ہوا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ فوج کے انخلا کے لیے پر عزم ہیں اور یہ ان کا انتخابی مہم میں امریکا کی عوام سے کیا گیا وعدہ بھی تھا، وہ اگلے انتخابات تک اپنے وعدے پورے کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ عوام کی جانب انگلی اٹھا کر کہہ سکیں کہ میں نے افغانستان سے فوجی انخلا کا وعدہ کیا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کا فلسفہ معیشت کو بہتر سطح پر لانا جبکہ تجارت اور بین الاقوامی اتحاد کو ترک کرکے امریکا کو مستحکم کرنے پر غور کرنا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا اور طالبان تمام اہم معاملات پر رضامند ہوگئے، زلمے خلیل زاد
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ اس بات پر بحث کرسکتے ہیں کیونکہ آپ کو اپنے اتحادی اور تجارتی شراکت داروں سے بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے پورا امریکی نظریہ بدل گیا ہے، مجھے یقین ہے کہ امریکی سفارتکار اور خصوصی نمائندہ برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد روز صبح اس خوف کے ساتھ اٹھتے ہوں گے کہ کہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے رات کو امریکی فوج واپس بلانے کا ٹوئٹ تو نہیں کردیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی معاہدے کا انتظار نہیں کریں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 سے 4 ماہ میں تاریخی پیش رفت سامنے آئی ہے تاہم عوام کی سوچ بدلنے کے لیے اب بھی وقت درکار ہے۔
احمد راشد نے بتایا کہ طالبان اور زلمے خلیل زاد میں مذاکرات کا اگلا مرحلہ رواں ماہ کے آخر میں ہوگا اور ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہونے والا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کو مولر تحقیقات سے بڑے خدشات کا سامنا ہے تاہم مجھے یہ لگتا ہے امریکا افغانستان سے فوجی انخلا کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’طالبان فوری طور پر جنگ بندی نہیں کریں گے جب تک انہیں مزید زمینی حصہ نہ مل جائے، انہیں معلوم ہے کہ خطے کے ممالک ان کی حمایت کر رہے ہیں، وہ جاپان، انڈونیشیا اور روس وغیرہ جاچکے ہیں، خطے کے تمام ممالک طالبان کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور یہ افغان صدر اشرف غنی کے لیے بڑا مسئلہ ہے‘۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 4 فروری 2019 کو شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں