‘خاشقجی کے قتل پر امریکا کی خاموشی ناقابل فہم ہے‘
ترکی کے صدررجب طیب اردوان نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر امریکا کی ’خاموشی‘ کو ناقابل فہم قرار دے دیا۔
اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’مجھے امریکا کی خاموشی سمجھ نہیں آرہی، اس ضمن میں ہم سب کچھ صاف و شفاف چاہتے ہیں کیونکہ جہاں انتشار ہے وہاں قتل ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات اقوامِ متحدہ سے کروانے کا خواہاں
ترکی کے سرکاری میڈیا ٹی آر ٹی ٹیلی ویژون پر انٹرویو دیتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ ’جمال خاشقجی کا قتل کوئی عام فعل نہیں‘۔
واضح رہے کہ 2 اکتوبر 2018 کو جمال خاشقجی اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا۔
گزشتہ برس 17 نومبر کو امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔
امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق امریکا کی جانب سے یہ نتیجہ ایک دن پہلے سعودی پراسیکیوٹر کے بیان سے براہ راست متصادم ہے، جس میں انہوں نے اس سفاکانہ قتل میں سعودی شہزادے کے ملوث ہونے کو مسترد کیا تھا۔
مزیدپڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: دنیا ترکی کے اقدام کی منتظر
گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں ہی سعوی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں 11 ملزمان کو نامزد کردیا تھا۔
العربیہ میں شائع رپورٹ کے مطابق سعودی پراسیکیوٹرز نے 5 ملزمان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا جہنوں نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا اور واقعے کی مکمل نگرانی کی۔
جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟
خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔
تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کا قونصل خانے کے اندر صحافی کے قتل کا اعتراف
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔
تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔
اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
مزیدپڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔
17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔
اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان اچانک سعودی عرب کیوں گئے؟
بعد ازاں گزشتہ روز سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔
دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔