چاند کے تاریک حصے پر اترنے والا خلائی مشن کس طرح تاریخ بدلے گا؟
یوں تو چاند زمانہ قدیم سے ہی انسان کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا ہے اور اس کے متعلق طرح طرح کے قصے اور کہانیاں تاریخ کا حصہ رہے ہیں مگر گزشتہ ایک صدی میں بہترین تکنیکی و مواصلاتی سہولیات کی بدولت انسان کی چاند کو تسخیر کرنے کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے۔
مگر 1950 سے لیکر اب تک چاند کو تسخیر کرنے کے لیے جتنے بھی مشن امریکا اور روس نے بھیجے تھے وہ تمام چاند کے سامنے والے رخ، جسے روشن رخ بھی کہا جاتا ہے، تک ہی رسائی حاصل کر سکے، اپولو الیون مشن میں نیل آرم سٹرانگ نے بھی چاند کے اسی حصے پر پہلا قدم رکھ کر تاریخ رقم کی تھی۔
گزشتہ 2 دہائیوں میں امریکا، روس اور یورپین ایجنسی کے بعد دوسرے ممالک نے بھی اپنے خلائی مشنز کا باقاعدہ آغاز کیا اور ہمارے ہمسایہ ممالک چین اور بھارت خلائی دوڑ میں 2 نئے امیدوار بن کر سامنے آ ئے۔
مزید پڑھیں : چین کا اہم سنگ میل، چاند کے تاریک حصے پر اترنے والا پہلا خلائی مشن
زمین کے گرد لو ارتھ آربٹ میں "ہیونلی پیلس" کے نام سے اپنا خلائی مرکز قائم کرنے کے علاوہ چین اب تک خلا میں کئی انسانی مشن بھی بھیج چکا ہے۔ اگرچہ گزشتہ برس تکنیکی خرابیوں کے باعث چین کا خلائی مرکز بھی تباہ ہو کر زمین پر آگرا تھا مگر ابتدائی ناکامیوں کے باوجود بھی چین کے خلائی تسخیر میں عزائم اب تک بلند ہیں اور گذشتہ ماہ چین نے چاند کے تاریک حصے کی جانب اپنا مشن روانہ کیا جسے "چانگ ای فور" کا نام دیا گیا تھا۔
جب چین کی یہ خلائی گاڑی چاند کے مدار میں داخل ہوئی تو اس کی کامیابی کے امکانات بہت کم تھے کیونکہ چاند کے جس حصے پر اس نے لینڈ کرنا تھا وہ زمین سے بہت زیادہ فاصلے پر ہے، جس کی وجہ سے زمین سے چاند کے اس حصے تک رابطہ ممکن نہیں ہے۔
اس کے لیے چینی سائنسدانوں نے ایک متبادل راستہ اختیار کیا اور چاند کے گرد گردش کرتے ہوئے ایک مصنوعی مواصلاتی سٹیلائٹ کے ذریعے اس خلائی گاڑی سے رابطہ رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا، اگرچہ ابتدا میں اس طریقہ کار میں بھی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں تھی مگر چینی سائنسدانوں نے یہ خطرہ لینے کا فیصلہ کیا۔
چین کی اس خلائی گاڑی یا لیونر ایکسپلورر نے 3 جنوری 2019 کو مقامی وقت کے مطابق 10 بج کر 26 منٹ پر چاند کی جس تاریک سطح پر لینڈ کیا اسے "وان کارمان کریٹر" کہا جاتا ہے۔
اس کریٹر کا نام امریکی خلائی انجینئر اور ریاضی دان "تھیوڈور وان کارمان" کے نام پر رکھا گیا تھا جو تقریبا 110 میل یا 186 کلومیٹر کے وسیع رقبے پر مشتمل ہے جبکہ چاند کا یہ حصہ "چاند کا جنوبی قطب یا ایشکن" کہلاتا ہے، اس خلائی گاڑی نے ایک گھنٹے بعد زمین پر آپریٹر کو چاند کی سطح کی چند واضح تصاویر بھی بھیجی تھیں جبکہ اس کی لانچنگ کے لیے چین نے تھری ای بی راکٹ استعمال کیا تھا۔
انسان کی پہنچ سے دور چاند کی اس تاریک سطح کو فلکیات کی اصطلاح میں "کوائٹ پلیس" یا خاموش مقام کہا جاتا ہے کیونکہ یہ حصہ اب تک زمین سے پہنچنے والے سگنلز کی بہتات سے بچا ہوا ہے اور اس وجہ سے یہاں ریڈیائی لہروں کا شور نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ بھی پڑھیں : چاند کے بعد چین کی 'مصنوعی سورج' کی تیاری
اسی لیے سائنسدان اس تاریک حصے پر ریڈیو ایسٹرا نامی کی مزید تحقیق کرنے کے لیے بے چین ہیں، ریڈیو ایسٹرا نامی پر تجربات کر نے کے لیے چاند ای فور میں مخصوص اسپیکٹرو میٹر نصب کیے گئے ہیں، اس خلائی مشن کے ابتدائی اور بنیادی مقاصد میں چاند کی سطح کا جائزہ لے کر یہاں موجود معدنیات اور دیگر جغرافیائی معلومات فراہم کرنا ہے۔
چینی سائنسدانوں کے مطابق جنوبی قطب یا ایشکن پر واقع جس کریٹر پر اس اسپیس کرافٹ نے لینڈ کیا ہے وہاں چاند کی اندرونی سطح کا مواد یا مینٹل موجود ہے جو زمانہ قدیم میں کسی سیارچے سے ٹکراؤ یا شدید دھماکے کے باعث باہر آگیا ہوگا، اس مینٹل کا تجزیہ کر کے ماہرین یہ معلوم کر نے کی کوشش کریں گے کہ چاند کی اندرونی سطح میں کس طرح کے مادے پائے جاتے ہیں اور اس کی اوپر کی سطح (کرسٹ) اتنی پتلی کیوں ہے؟
اس کے علاوہ چاند کے ماحول میں نیوٹرون ریڈی ایشن اور نیوٹرل ایٹموں سے متعلق اہم معلومات حاصل کر کے انہیں زمین تک پہنچانا بھی اس مشن کے مقاصد میں شامل ہے تاکہ سائنسدان چاند سے متعلق مستقبل کے خلائی مشنز کی بھرپور طریقے سے منصوبہ بندی کرسکیں اور اس کے لیے ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے سائنسدان اس مشن پر کام کرنے والے چینی سائنسدانوں کے ساتھ اشتراک کے خواہش ظاہر کر چکے ہیں، جو کامیاب لینڈنگ کے بعد مکمل سکوت کی حامل، اس جگہ پر ریڈیو ایسٹرا نامی کی ایک آبزرویٹری قائم کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اس اسپیس کرافٹ میں ایک خاص آلہ "ایڈوانسڈ انالائزر" بھی لگایا گیا ہے جو سورج سے چاند کی جانب آنے والی مخصوص شعاعوں یا سولر ونڈز کا تجزیہ کریگا کہ ان سے چاند کی سطح پر کون سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
عام اندازے کے مطابق اسپیس کرافٹ میں نصب اس آلے اور متعدد کیمروں سے حاصل ہونے والا پہلا ڈیٹا 11 فروری تک زمین پر آپریٹر کو موصول ہوجائے گا، لیکن اس مشن سے طے شدہ وقت سے پہلے ہی حیرت انگیز معلومات حاصل ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
15 جنوری کو چین کا یہ خلائی مشن اس وقت ایک دفعہ پھر دنیا بھر کی خبروں کا مرکز بن گیا جب چینی سائنسدانوں نے اعلان کیا کہ اس خلائی گاڑی میں ایک ایکو سسٹم میں محفوظ پودا بھیجا گیا تھا جو چاند کی سطح پر نشوونما پارہا ہے۔
اس خبر نے دنیا بھر کی سائنس کمیونٹی سمیت عام افراد کو بھی شدید ہیجان میں مبتلا کردیا کیونکہ انسان نے پہلی دفعہ زمین سے باہر زندگی دریافت کی تھی مگر بدقسمتی سے چاند کی سطح کے شدید درجہ حرارت کے باعث یہ پودا فورا ہی مرجھا کردم توڑ گیا۔ اگرچہ چاند کی سطح پر ان مادوں کی بہتات ہے جو انسان کی رہائش کے لیے لازمی عوامل جیسے پانی، آکسیجن، یہاں تک کے ایندھن بھی فراہم کر سکتے ہیں مگر کسی بھی جگہ طویل عرصے تک قیام کے لیے سب سے اہم خوراک کا مستقل بندوبست ہے اس لیے سائنسدانوں کی پہلی کوشش یہ ہے کہ وہ چاند کی سطح پر کچھ سادہ سبزیاں یا آلو اُگا سکیں، جنھیں خلا باز یا اسپیس ٹورسٹ خوراک کے طور پر استعمال کر سکیں۔
چینی سائنسدانوں نے جو ایکو سسٹم اس مشن کے ساتھ چاند کی تاریک سطح پر بھیجا تھا اس میں مٹی، بیج، پھلوں کے اجزا اور خمیر شامل تھا مگر یہ ان کی توقع کے برعکس فورا ہی ختم ہوگیا کیونکہ اصل مسئلہ چاند کے ماحول کا بلند اور نا موافق درجہ حرارت تھا۔
اگرچہ اس کے ساتھ مصنوعی طریقے سے درجہ حرارت کو مناسب حد تک رکھنے کے لیے انتظامات کیے گئے تھے مگر 200 گھنٹوں کا وقت پورا ہونے سے پہلے ہی یہ دم توڑ گیا کیونکہ رات میں چاند کا درجہ حرارت منفی سے نیچے ہونے کے باعث وہاں نباتات کا پنپنا ممکن نہیں۔
اگرچہ سائنسدانوں کا یہ تجربہ ناکام رہا ہے مگر چاند ای فور کے مشن میں شامل دیگر تجربات پر بدستور کام جاری ہے اور امید ہے کہ اگلے چند ماہ میں چاند کی سطح اور ماحول سے متعلق مزید حیرت انگیز معلومات ہمارے سامنے آئیں گی۔
چین اپنے خلائی مشن کے لیے بہت بلند عزائم رکھتا ہے اور اس کے سائنسدان 2030 تک اپنا خلائی پروگرام امریکا اور روس کے ہم پلہ لے جانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔
گزشتہ برس چاند کی طرح مریخ پر بھی ایک روبوٹ روور بھیجنے کے چینی منصوبے کا اعلان کیا جا چکا ہے جس کے لیے مریخ کی سطح پر 2 مقامات کا انتخاب بھی کرلیا گیا ہے جہاں یہ روور لینڈ کرے گا۔
یہ مشن 2020 کی گرمیوں میں لانچ کیا جائے گا اور 2021 تک مریخ پر لینڈ کریگا جس میں ایک روور اور آربٹر شامل ہوں گے، اس مشن میں جو پہلا مقام "ٹارگٹ" کے طور پر منتخب کیا گیا ہے وہ وائی کنگ–ون اور ناسا کے پاتھ فائنڈر روبوٹ پروب کی لینڈنگ کے مقام کے انتہائی قریب ہے لیکن ابھی اس کے لینڈنگ کے مقام کا حمتی فیصلہ ہونا باقی ہے اور چینی سائنسدان اس مقصد کے لیے مارس گلوبل سرویئر اسپیس کرافٹ میں نصب آلے مارس آربٹل لیزر آلٹی میٹر سے حاصل شدہ ڈیٹا سے مدد لے رہے ہیں۔
صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔