جعلی اکاؤنٹس کیس: اومنی گروپ کے مالک انور مجید کی نظرثانی درخواست
اسلام آباد: اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور دیگر افراد نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی اپیل دائر کردی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عظمیٰ اسلام آباد میں تحقیقات کے حکم پر نظرثانی کرے۔
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ انہیں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا مکمل ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا، شفاف ٹرائل کے لیے درخواست گزار کو مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اسلام آباد میں تحقیقات کے حکم پر نظرثانی کرے، جے آئی ٹی اور نیب کراچی میں تفتیش کرسکتے ہیں کیونکہ تمام الزامات کراچی سے متعلق ہیں اور تمام گواہان بھی کراچی سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ نیب کو اسلام آباد میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم غیر قانونی ہے، مذکورہ مقدمہ نیب نہیں بلکہ ایف آئی اے سے متعلق ہے جبکہ تحقیقاتی ایجنسی بینکنگ عدالت میں چالان پیش نہیں کرسکی۔
مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری، فریال تالپور کی عدالتی فیصلے کےخلاف نظرثانی اپیل
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ مقدمے کو غیر قانونی طور پر لٹکایا جارہا ہے، درخواست گزار صحت کی خرابی کا شکار ہے اور اس سلسلے میں میڈیکل رپورٹس بھی عدالت میں پیش کیں۔
عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ ایف آئی اے کو ہدایات جاری کی جائیں کہ مقدمے کا چالان جلد عدالت میں پیش کرے۔
درخواست میں مزید مؤقف اپنایا گیا کہ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ پیش کر چکی ہے، مزید تفتیش کا کوئی جواز نہیں، جے آئی ٹی کی مزید تفتیش سے درخواست گزار کا شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہو گا۔
انور مجید و دیگر کی درخواست میں کہا گیا کہ ایف آئی اے نے درخواست گزار کے خلاف میڈیا مہم بھی چلائی، میڈیا کو پیش رفت رپورٹس فراہم کی جاتی رہیں جبکہ جے آئی ٹی رپورٹ قیاس آرائیوں پر مبنی ہے اور فرض کر لیا گیا کہ اکاؤنٹس میں تمام پیسے جرائم سے کمائے گئے۔
فریال تالپور نے عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس اختیارات پر سوال اٹھا دیا
دوسری جانب جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور نے فاروق ایچ نائیک کے ذریعے سپریم کورٹ میں الگ سے نظرثانی درخواست دائر کردی۔
اس درخواست میں فریال تالپور نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس اختیارات پر سوال اٹھایا ہے کہ کیا از خود نوٹس کے اختیارات لا محدود ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے پاس مذکورہ حکم جاری کرنے کے اختیارات نہیں۔
عدالت میں دائر درخواست کے مطابق درخواست گزار اور آصف علی زرداری کے خلاف 6 جولائی 2018 کو ایف آئی اے نے پرچہ درج کیا، جس میں الزام لگایا گیا کہ اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ڈیڑھ کروڑ روپے منتقل ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: بلاول، مراد علی شاہ کے نام 'ای سی ایل' سے نکال دیئے جائیں، سپریم کورٹ
درخواست کے مطابق انہوں نے تحقیقاتی ایجنسی سے مکمل تعاون کیا، ایف آئی اے نے 21 جولائی 2018 کو عبوری چالان پیش کیا، تاہم ادارہ بینکنگ کورٹ میں حتمی چالان داخل کرانے میں ناکام رہا۔
عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ سے مقدمہ ختم کرنے کی استدعا کی، تاہم عدالت عظمیٰ نے 7 جنوری کے حکم نامے میں نیب اور جے آئی ٹی کو تفتیش جاری رکھنےکا حکم دیا۔
درخواست کے مطابق مذکورہ حکم مکمل طور پر غیر قانونی ہے، اس پر نظرثانی درکار ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس کیس کے فیصلے کے خلاف سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور نے نظرثانی اپیل دائر کی تھی۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: 'جعلی اکاؤنٹ کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو فیصلہ سمجھ لیا گیا ہے'
آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔
علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔
بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔
تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔