پاکستان آبی وسائل سے معاشی فائدہ حاصل نہیں کررہا، ورلڈ بینک
اسلام آباد: ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنے آبی وسائل سے معاشی فائدہ نہیں اٹھارہا اور ملک میں پانی کا بہتر طریقے سے استعمال بھی نہیں کیا جاتا۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کےمطابق عالمی بینک کی جانب سے شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں جی ڈی پی کا 4 فیصد یا تقریباً 12 ارب روپے سالانہ پانی، نکاسی، سیلاب اور خشک سالی پر خرچ ہورہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انڈس ڈیلٹا کے انحطاط سے معیشت کو ہونے والا نقصان تقریباً 2 ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ آلودگی اور دیگر ماحولیاتی انحطاط کا جائزہ نہیں لیا جاسکا۔
مزید پڑھیں: قومی آبی کونسل کا اجلاس، آبی پالیسی کے اطلاق کیلئے تجاویز طلب
معاشی فوائد اور لاگت کے یہ اندازے ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے پانی کے وسائل سے معاشی طور پر استفادہ نہیں کررہا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک میں پانی کے استعمال کا طریقہ کار صحیح نہیں، زراعت کے شعبے میں سب سے زیادہ پانی کا استعمال کیا جاتا ہے جو ملک کی جی ڈی پی کا پانچواں حصہ ہے تاہم اس کا صرف آدھا حصہ سیراب فصلوں سے ہے۔
خیال رہے کہ آب پاشی کا شعبہ ملک کی مجموعی پیداوار میں سالانہ 22 ارب ڈالر تک حصہ ڈالتا ہے جبکہ اہم ترین 4 فصلیں، گندم، چاول، کپاس اور گنا جو 80 فیصد پانی کا استعمال کرتی ہیں، ان سے جی ڈی پی کا 5 فیصد حصہ پیدا ہوتا ہے جو 14 ارب ڈالر سالانہ ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پانی سے معیشت کے دیگر شراکت داروں کا صحیح اندازہ لگانا نہایت مشکل ہے تاہم ہائیڈروپاور جنریشن اس میں نمایاں ہے جس کی موجودہ مارکیٹ کی قیمت 1 ارب سے 2 ارب ڈالر تک ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پانی اور پانی پر منحصر نظام کو ماحولیاتی اثرات پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے، دریا، جھیل، نم زمین اور انڈس ڈیلٹا تنزلی کا شکار ہیں اور اس تنزلی سے حیاتیاتی نقصان، صاف پانی اور مچھلیوں کے ذخائر میں کمی سمیت دیگر ماحولیاتی نقصانات ہورہے ہیں اور ان میں ساحلی مینگروو جنگلات کی جانب سے طوفان سے تحفظ بھی شامل ہے، اس کے ساتھ ساتھ پانی کا بے جا اخراج اور آبادی کا بڑھنا بھی اس کی تنزلی کی اہم وجہ ہے۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق خراب پانی کے ذخائر کے انتظامات اور پانی فراہم کرنے کے نظام میں خرابی کی وجہ سے پانی کے تحفظ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے جس میں آب پاشی اور نکاسی، مقامی پانی کی فراہمی اور صفائی بھی شامل ہے، اس کے ساتھ ساتھ چند بڑھتے ہوئے، پانی سے متعلق طویل المدتی خدشات پر بھی کام نہیں کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان ’آبی وسائل کی قلت‘ کے شکار 15 ممالک میں شامل
رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ آبی ذخائر کے انتظامات پانی کے ڈیٹا اور معلومات کی کمی، آبی ذخائر کی منصوبہ بندی کا کمزور ہونا، ماحولیاتی طور پر غیر مستحکم پانی کا اخراج، آلودگی اور زراعت میں پانی سے پیداوار میں کمی پر سمجھوتہ کیا جارہا ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبوں میں شعبوں کے درمیان پانی کے کم یا زیادہ ہوتے مطالبات یا شدید خشک سالی سے نمٹنے کے لیے میکانزم موجود نہیں ہے جبکہ ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کی مانگ میں اضافے سے یہ خامیاں بدتر ہونے کا خدشہ ہے۔
مجموعی طور پر اس شعبے میں فنڈز، تجویز کردہ سطح سے بھی نیچے ہے اور یہی صورتحال انفرااسٹرکچر، اصلاحات اور اداروں کی بہتری، شہری سہولیات، سیلاب کی معلومات اور ماحولیاتی انتظامات کی بھی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ آب پاشی اور شہری علاقوں میں پانی کے استعمال پر گورننس سب سے بڑا چیلنج ہے۔