پی آئی اے نے سی ای او کو سہولت دینے کیلئے ’ٹیلر میڈ‘ اشتہار جاری کیا، رضا ربانی
اسلام آباد: سینیٹر میاں رضا ربانی نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے بظاہر موجودہ چیف ایگزیکٹو آفسر (سی ای او) کو ایڈجسٹ کرنے اور اس عہدے پر ایک مستقل شخص کے تقرر کے لیے ٹیلر میڈ اشتہار جاری کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران انہوں نے کہا کہ متعلقہ آسامی کے لیے جو قابلیت درکار تھی اس میں وار اسٹڈیز اور ملٹری آپریشن جیسی غیر ضروری چیزیں شامل کی گئیں۔
ایک سوال نامے پر جمع کروائے گئے تحریری جواب جس میں کہا گیا تھا کہ قائم مقام سی ای او سمیت تمام 11 عہدیداران جو پی آئی اے کے ساتھ کام کر رہے ہیں ان کا تعلق پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) سے ہے، کا حوالہ دیتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ یہ قائم مقام سی ای کو مستقل کرنے کی کوشش دکھائی دے رہی ہے۔
مزید پڑھیں: ایئرمارشل ارشد ملک کی بطور سی ای او 'پی آئی اے' تعیناتی قانونی قرار
انہوں نے اس بات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے پی آئی اے کی ملٹرالائیزیشن قرار دیا اور پاکستان ایئرفورس سے نمائندگی کرنے والے عہدیداروں کے نام پڑھنا شروع کیے، اس فہرست میں سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک، (صحت سے متعلق انجینرئنگ کمپلیکس) کے ڈائریکٹر ایئر وائس مارشل صوبان نذیر، سی ای او کے مشیر ایئر وائس مارشل نور عباس، (انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے ایئر کموڈور خالد الرحمٰن، (خریداری اور لاجسٹکس) کے ایئر کموڈور جبران سلیم بٹ، (بجٹنگ) کے ایئر کموڈور جواد ظفر چوہدری، (فوڈ سروسز) کے ایئر کموڈور شاہد قادر، منیجر پروجیکٹ، پی ای سی، ونگ کمانڈر حافظ طاہر محمود، (فنانس) کے ونگ کمانڈر محمد عاصم خان، (انسانی وسائل اور انتظامیہ) کے ونگ کمانڈر کامران انجم اور (اے ڈی سی) کے فلائٹ لیفٹیننٹ طاہر فاروق کا نام شامل ہے۔
ایوان کے سامنے پیش کی گئی ایک اور فہرست میں یہ بات سامنے آئی کہ 8 اگست 2016 سے 8 مارچ 2018 کے درمیان پی آئی اے سے ذیلی محکموں میں واپس بھیجے گئے 15 عہدیداروں میں سے 14 پاک فضائیہ سے تھے۔
علاوہ ازیں عوامی اہمیت کے نقطے پر بات کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے ملک میں بلا روک ٹوک ماورائے عدالت قتل اور اس کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھانے کے معاملے پر بحث کے لیے پورے ایوان کی سینیٹ کیمٹی کا اجلاس جلد بلانے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کو ماہانہ 2 ارب روپے کے آپریشنل خسارے کا سامنا
نواب اکبر بگٹی کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ پہلے سے متوقع پلان کے تحت ریاست نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ’قتل کرنے کا لائسنس‘ دیا۔
ساہیوال واقعے پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ والدین کو بچوں کے سامنے قتل کردیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے بچوں کو پاکستان کا مستقبل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست جس کی ذمہ داری ان بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانا تھی اس نے بالکل مخالف کام کیا۔