ساہیوال کا آپریشن 100 فیصد درست تھا، وزیرقانون پنجاب
وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے ساہیوال میں پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے آپریشن کو 100 فیصد درست قرار دے دیا۔
اجلاس کے بعد وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'وزیر اعظم عمران خان نے سانحہ ساہیوال پر خصوصی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی اور حکومت نے تیز اور شفاف تحقیقات کا وعدہ پورا کیا۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہم انصاف کے تمام تقاضے پورے کریں گے، سانحہ پنجاب حکومت پنجاب کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے اور سانحہ ساہیوال کیس کو مثال بنائیں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق خلیل کا خاندان بے گناہ ہے اور ان کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی کو ٹھہرایا گیا ہے، جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے تمام افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ذیشان جاوید کے بارے میں مزید تفتیش کی مہلت مانگی گئی ہے۔'
راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ 'ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے 5 اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت چالان کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا، ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا ہے۔'
انہوں نے ساہیوال آپریشن کے صحیح یا غلط ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 'آپریشن 100 فیصد درست تھا اور اس میں مارا جانے والا ذیشان گناہ گار تھا، کل میڈیا کے لیے ان کیمرا بریفنگ منعقد کر رہے ہیں جس میں واقعے اور تحقیقات کے تمام معاملات سامنے لائے جائیں گے۔'
یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال: جے آئی ٹی کا جائے وقوع کا دورہ، ملوث اہلکاروں کی شناخت
قبل ازیں ساہیوال واقعے پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی واقعے کے بارے میں ابتدائی رپورٹ پیش کر دی گئی۔
اجلاس میں سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان، راجہ بشارت، چیف سیکریٹری، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل پولیس اور متعلقہ ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
قبل ازیں واقعے کی جے آئی ٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 2 سے 3 روز میں حتمی رپورٹ مکمل نہیں کی جاسکتی۔
ساہیوال میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی اعجاز حسین شاہ نے کہا کہ آج پیش کی جانے والی رپورٹ کو حتمی نہیں سمجھا جاسکتا۔
ساہیوال واقعہ
خیال رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔
سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔
مزید پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک
واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔
چے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔
بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔
اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔
تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔
بعد ازاں گزشتہ روز وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔
وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال:’ذیشان کا تعلق داعش سےتھا‘
ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔
راجا بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔
تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔
ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔
جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔