گاڑیوں کی فروخت میں کمی، آٹو شعبہ اپنی پیداوار کم کرنے پر مجبور
لاہور: ملک کے 3 بڑے آٹو اسمبلرز رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں سیلز میں کمی کے امکان کے باعث رواں ماہ سے اپنی ماہانہ پیداوار شیڈول میں نظرثانی کر رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان آٹوموٹوو مینوفکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کا کہنا تھا یہ اقدام بجٹ میں عائد کی گئی اس پابندی کے باعث اٹھانا پڑا جس میں مینوفکچررز نان فائلر کو آٹوموبائلز فروخت نہیں کرسکتا۔
پاما کے وائس چیئرمین اور انڈس موٹر کمپنی کے سی ای او علی اصغر جمالی کا کہنا تھا کہ ’(نان فائلرز کو فروخت پر پابندی) کے اثر سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ مالی سال کے اختتام تک ملک کی کار مارکیٹ کا حجم 10 فیصد تک کم ہوجائے گا‘۔
مزید پڑھیں: نئی حکومتی پابندیاں، استعمال شدہ کاروں کی درآمدات متاثر ہونے کا خدشہ
انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی کی رفتار ختم ہوگئی ہے اور اب انہیں فروخت میں کمی کے رجحان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
علی اصغر جمالی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنی پیداواری شیڈول پر نظرثانی کی ہے اور رواں ماہ ہم اپنے پیداواری پلان کے برخلاف تقریباً ایک ہزار کم کاریں بنائیں گے‘۔
صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے رواں ماہ کمپنی کی جانب سے گاڑیوں کی کل پیداوار کی صحیح تعداد تو نہیں بتائی لیکن اس بات پر زور دیا کہ فروخت میں کمی کے رجحان کے مطلب (ٹوئیوٹا کی کار اور جیپ) بنانے والی ان کی کمپنی سال کے اختتام تک 72 سے 74 ہزار کے ہدف کے مقابلے میں 62 سے 64 ہزار یونٹس فروخت کرے گی۔
واضح رہے کہ یہ وہی تعداد ہے جس کا ہدف گزشتہ برس اس کمپنی کی جانب سے حاصل کیا گیا تھا۔
دوسری جانب جب اس معاملے پر بات چیت کے لیے سوزوکی کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ کمپنی 32 فیصد پیداوار اور فروخت کے نقصانات کا سامنا کررہی۔
خیال رہے کہ لوگوں کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے پر مجبور کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 19-2018 کے بجٹ میں نان فائلر کو 50 لاکھ سے زائد کی گاڑی اور زمین کی فروخت پر پابندی عائد کی تھی، تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اقتدار میں آنے کے بعد ستمبر 2018 میں ’ضمنی بجٹ‘ میں اس پابندی کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے دباؤ کے باعث یہ نہیں ہوسکا۔
فروخت میں کمی
تینوں اہم کار اسمبلرز کی جانب سے رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں مختلف انجن کی صلاحیت کے لحاظ سے ایک لاکھ 13 ہزار 4 سو 94 کاریں اور جیپیں تیار کی تھیں لیکن وہ اس میں سے صرف ایک لاکھ 4 ہزار 38 یونٹس فروخت کرسکے تھے۔
اگر گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کی بات کی جائے تو ان اسمبلرز نے ایک لاکھ 7 ہزار 7 سو 87 یونٹس کی پیداوار کی تھی، جس میں سے ایک لاکھ 3 ہزار 4 سو 32 یونٹس فروخت ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: فنانس ترمیمی بل منظور،نان فائلرز کیلئے زمین اور گاڑی خریدنے پر دوبارہ پابندی
سوزوکی، جو 800 سی سی اور 1000 سی سی کے یونٹس پر زیادہ انحصار کرتی ہے اس کی کار سیلز میں بڑی حد تک کمی ہوئی اور کمپنی اپنی مشہور ’مڈل کلاس‘ کار مہران کے 22 ہزار 298 یونٹس کا صرف 75 فیصد حصہ ہی فروخت کرسکی۔
اس حوالے سے پاپام کے سابق چیئرمین سید نبیل ہاشمی کا کہنا تھا آٹوموٹو انڈسٹری میں سست رفتاری کا اصل اثر جنوری میں صنعت کی فروخت کی تعداد پر پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا کاروبار کچھ 40 فیصد تک کنٹریکٹ پر ہے اور اصل سامان مینوفکچررز (او ای ایمز) ہفتہ وار بنیادوں پر اپنے آڈرز پر نظرثانی کر رہا ہے اور اگر حکومت نے پابندی ختم نہیں کی تو ہمیں ڈر ہے کہ اس سہ ماہی کے مارچ کے اختتام تک مارکیٹ 30 فیصد تک کم ہوجائے گی۔
تبصرے (1) بند ہیں