مذاکرات کیلئے چیف جسٹس کی تجویز پر سیاسی رہنماؤں کا خیر مقدم
اسلام آباد: ملک کی تین اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی جانب سے ’چارٹر آف گورننس کو تیار کرنے کے لیے 'بین الادارتی مذاکرات‘ کے انعقاد کے مطالبے کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ساتھ ہی اس کی تفصیلات واضح کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنماؤں اور عہدیداروں سے جب چیف جسٹس کی تجویز پر رد عمل دینے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اپنی جماعت کی سطح پر بات نہیں کرسکتے کیونکہ پارٹی کی سطح پر یہ معاملہ ابھی زیر غور نہیں آیا۔
تاہم محتاط انداز میں انہوں نے چیف جسٹس کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں مختلف شخصیات اور رہنماؤں کی جانب سے اس طرح کے خیالات سامنے آتے رہے ہیں لیکن کسی نے اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔
مزید پڑھیں: ازخود نوٹس کا استعمال بہت کم کیا جائے گا، چیف جسٹس
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹس ریفرنس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ترقی کے لیے بین الادارتی مذاکرات کی تجویز دی تھی، جسے انہوں نے چارٹر آف گورننس کا نام دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم اپنی قومی زندگی میں اس مرحلے تک پہنچ گئے ہیں جہاں ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں کا ضرور جائزہ لینا چاہیے اور چارٹر آف گورننس کے ساتھ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس طرح کی غلطیاں دوبارہ نہ ہوں‘۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ’میں صدر پاکستان سے درخواست کروں گا کہ وہ ایک اجلاس منعقد کریں، جس میں مشاورت کی جائے اور اس میں اعلیٰ پارلیمانی قیادت، اعلیٰ عدلیہ کی قیادت اور عسکری و انٹیلی جنسی ایجنسیوں سمیت اعلیٰ ایگزیکٹو قیادت شریک ہو‘۔
انہوں نے تجویز دیتے ہوئے مزید کہا تھا کہ بین الادارتی مذاکرات کا واحد مقصد آئین اور قانون کی حکمرانی، جمہوریت کو مضبوط کرنا اور ایسا ماحول پیدا کرنا ہے کہ جہاں ریاست اور اس کے تمام ادارے عوام کے اصل مسائل حل کرنے کے لیے پوری طرح سے قابل ہوسکتے ہیں۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر دیئے گئے پیغام میں کہا کہ ’چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بہت اچھے، قابل تعریف اور متاثر کن الفاظ کہے ہیں، تاہم ہم اس طرح کے اچھے الفاظ پہلے بھی سن چکے ہیں لیکن بعد میں مایوسی ہوئی‘۔
خیال رہے کہ بین الادارتی مذاکرات کا مشورہ سب سے پہلے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے دیا گیا تھا۔
اگست 2017 میں کوئٹہ میں ایک قومی سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک فریم ورک پر اتفاق رائے کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا تھا، جس کے تحت تمام ریاستی ادارے 1973 کے آئین میں رہتے ہوئے کام کرنے اور اس سلسلے میں آئینی معاملات پر مذاکرات کے لیے سینیٹ کا پلیٹ فارم مہیا کرنے کی پیش کش کی تھی۔
ادھر جب چیف جسٹس کی تجویز پر رد عمل کے لیے سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ صدر کے بجائے پارلیمنٹ کے فورم کو اس طرح کے ریاستی اداروں کے درمیان مذاکرات کے اقدام کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایوان صدر ایک ’بیگیج‘ تھا اور ماضی میں آئین میں آرٹیکل 58-2 (بی) شامل کرنے سمیت ملکی سیاست میں اس کا اہم کردار رہا اور یہ سیاست کا مرکز بن گیا۔
رضا ربانی نے یاد دہانی کرائی کہ یہ وہ وقت تھا جب صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے لیے ’ٹرائیکا‘ کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کے الوداعی 'فل کورٹ ریفرنسز': کبھی یادگار، کبھی متنازع
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بھی بین الادارتی مذاکرات کے انعقاد کی تجویز کا خیر مقدم کیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’آئین ہی اصل طاقت کا محور ہونا چاہیے‘۔
دوسری جانب سینیٹ میں تحریک انصاف کے قائد ایوان شبلی فراز کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے ریمارکس کی کچھ تفصیلات درکار ہیں کیونکہ پہلے ہی تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ذاتی طور پر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک اس راستے پر گامزن نہیں جس پر اسے ہونا چاہیے۔