جعلی اکاؤنٹس کیس تحقیقات کیلئے نیب راولپنڈی کے سپرد
اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں 3 دن مشاورت کے بعد جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس کو تحقیقات کے لیے نیب راولپنڈی کے دفتر بھیج دیا۔
نیب راولپنڈی کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) عرفان منگی، سابق صدر آصف علی زرداری، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی دیگر اعلیٰ قیادت اور ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف اس کیس کی نگرانی کریں گے۔
خیال رہے کہ عرفان منگی پاناما پیپرز کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: ای سی ایل میں شامل 172 افراد کی فہرست جاری
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے فیصلے میں نیب کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ملزمان کے خلاف کراچی کے بجائے راولپنڈی یا اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کریں۔
ابتدائی طور پر نیب شکایت پر انکوائری کا آغاز کرے گا اور اگر کچھ معتبر ثبوت ملتے ہیں تو اس انکوائری کو تحقیقات میں تبدیل کردیا جائے گا، اس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا جائے یا نہیں۔
اس خصوصی کیس سے متعلق وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ نیب انکوائری پر نہیں جائے گا لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی گئی جے آئی ٹی کی جانب سے کی گئی انکوائری کی بنیاد پر نیب تحقیقات کا آغاز کرے گا۔
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں الزام لگایا تھا کہ 172 افراد کے جعلی بینک انکاؤنٹس ہیں اور یہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں، ان افراد میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض بھی شامل ہیں۔
اس معاملے پر عدالت عظمیٰ کے دیے گئے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آصف علی زرداری، فریال تالپور اور ملک ریاض سمیت 170 سے زائد ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر رہیں گے، ساتھ ہی عدالت نے نیب کو کہا تھا کہ وہ اپنی تحقیقات 2 ماہ میں مکمل کرے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جو لوگ کرپشن میں مجرم پائے گئے ان کے پاس 2 آپشن ہوں گے، آیا وہ ریفرنس کا سامنا کریں یا پلی بارگین کے لیے پیش کش کریں۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کا حکم
دوسری جانب عدالت عظمیٰ کی جانب سے بنائی گئی جے آئی ٹی نے ملزمان کے خلاف 16 ریفرنسز کی سفارش کی تھی، اب یہ نیب پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح ان کے ساتھ پیش آتا ہے۔
نیب کی تحقیقات کے دوران ملزم کی جانب سے یہ بھی بتانا ہوگا کہ کس طرح کراچی میں بحریہ ٹاؤن کی اراضی میں اضافہ کیا گیا اور کیسے سرکاری زمین ان کے حوالے کی گئی۔
خیال رہے کہ حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات 2015 میں اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے شروع کی گئی۔
یہ خبر 21 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی