• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

افغانستان: گلبدین حکمت یار انتخابی دوڑ میں شامل

شائع January 20, 2019
اقوام متحدہ نے 2017 میں گلبدین حکمت یار کا نام بلیک لسٹ سے خارج کردیا تھا۔۔۔ فائل فوٹو
اقوام متحدہ نے 2017 میں گلبدین حکمت یار کا نام بلیک لسٹ سے خارج کردیا تھا۔۔۔ فائل فوٹو

افغانستان کے جنگجو رہنما اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے رواں برس جولائی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گلبدین حکمت یار کو طالبان نے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تھا جس کے بعد وہ 2016 میں افغان صدر اشرف غنی کی اجازت کے بعد 2 دہائیوں بعد واپس آئے تھے۔

گلبدین حکمت یار کے جنگجوؤں نے 1990 کی خونی خانہ جنگی میں ہزاروں افراد کو قتل کیا تھا اور وہ 2016 میں جلاوطنی سے واپسی کے بعد سے ایک متنازع شخصیت رہے ہیں۔

2003 میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے القاعدہ اور طالبان کے حملوں کی حمایت کرنے اور ان کا حصہ بننے کے الزامات کے تحت انہیں دہشت گرد قرار دیا تھا تاہم بعد ازاں اقوام متحدہ نے ان کا نام بلیک لسٹ سے نکال دیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان: صدارتی انتخابات 3 ماہ کیلئے ملتوی ڈان اخبار31 دسمبر 2018

تجزیہ کاروں کی جانب سے گلبدین حکمت یار کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے فیصلے کو اپنی جماعت حزب اسلامی پارٹی کو قانونی قرار دیئے جانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

انہیں افغانستان میں بہیمانہ خانہ جنگی کے دوران شدید ظلم و زیادتی کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر افغانیوں نے 1996 میں اس امید کے تحت طالبان کا خیرمقدم کیا کہ وہ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کریں گے۔

بعد ازاں افغان صدر اشرف غنی نے گلبدین حکمت یار سے امن معاہدہ طے کیا تھا اور امریکا کی جانب سے بھی اس معاہدے کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔

2016 میں اشرف غنی کی حکومت نے گلبدین حکمت یار کو عام معافی دی تھی۔

گلبدین حکمت یار نے صدارتی انتخاب لڑنےکا اعلان کرتے ہوئے قیام امن میں کردا ر ادا کرنے کا عندیہ دیا ہے، انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت طالبان کے ساتھ جنگ ختم کرنے میں ناکام ہوگئی۔

کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ’ موجودہ حالات میں ملک کو عوام کی اکثریت سے منتخب کردہ صدر کی قیادت میں ایک طاقت ور مرکزی حکومت کی ضرورت ہے ‘۔

افغانستان میں رواں برس جولائی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں طالبان کی جانب سے ملک کے بڑے حصوں میں سیکیورٹی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کا صدارتی انتخاب غیر معینہ مدت تک ملتوی

مزید برآں یہ انتخابات الیکشن حکام کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہیں جنہیں گزشتہ برس اکتوبر میں شفاف اور آزاد پارلیمانی انتخابات کے انعقاد میں ناکامی پر تنقید کا سامنا تھا۔

خیال رہے کہ 2014 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کو بھی دھاندلی زدہ قرار دیا گیا تھا جس میں موجودہ صدر اشرف غنی فتح یاب ہوئے تھے۔

افغانستان میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں جس میں اکثر سابق افسران اور سیاستدان بھی اشرف غنی کے مد مقابل ہیں۔

افغان صدر کی جانب سے دوسری صدارتی مدت کے لیے بطور انتخابی امیدوار آج 20 جنوری کو رجسٹریشن کروائے جانے کا امکان ہے۔

سیاسی ذرائع کے مطابق گزشتہ روز افغانستان کے وزیر داخلہ امراللہ صالح بھی نائب صدر کا انتخاب لڑنے کے لیے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں 20 اکتوبر 2018 کو پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے جن کے دوران ملک بھر میں بم دھماکے اور حملوں کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024