بلوچستان حکومت کی یقین دہانی:10 سال بعد'لاپتہ افراد' کےعزیزوں کا احتجاج ملتوی
کوئٹہ: بلوچستان میں لاپتہ افراد سے متعلق اہم پیشرفت سامنے آئی ہے اور صوبائی حکومت کی یقین دہانی کے بعد وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) نے لگ بھگ 10 سال سے جاری احتجاجی کیمپ عارضی طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
احتجاجی کیمپ ختم کرنے کا اعلان بلوچستان حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق یقین دہانی کے بعد کیا گیا۔
وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگایا گیا احتجاجی کیمپ 3 ہزار 464 روز بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان الیانی اور ان کی کابینہ کی یقین دہانی کے بعد 2 ماہ کے لیے ختم کیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران جام کمال نے کہا کہ ان کی حکومت نے لاپتہ افراد کے معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: طویل عرصے سے لاپتہ 8 افراد واپس آگئے
اس موقع پروزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نائب چیئرمین ماما قدیر اور دیگر بھی موجود تھے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ انہوں نے مظاہرین سے دو ماہ کا وقت مانگا ہے جبکہ ان کی حکومت لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ہے اور بازیابی کے لیے کوشاں ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ چند سیاسی جماعتوں نے اس معاملے کو اپنے سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم تمام فریقین سے بات کریں گے تاکہ لاپتہ افراد کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنایا جاسکے۔'
وی بی ایم پی کے چیئرمین نے انکشاف کیا کہ گزشتہ سال نئی حکومت کے آنے کے بعد 250 سے زائد لاپتہ افراد اپنے گھروں کو واپس آچکے ہیں۔
وائس چیئرمین ماما قدیر نے کہا کہ صوبائی حکومت سے رابطے کے بعد 11 لاپتہ افراد حال ہی میں اپنے گھر لوٹے ہیں۔
مزید پڑھیں: حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کچھ نہیں کررہی، سردار اختر مینگل
تاہم انہوں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت دیگر افراد کی بازیابی کے وعدے میں ناکام رہی تو دوبارہ احتجاج کا راستہ اختیار کیا جائے گا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔
واضح رہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے بعد 2009 میں بھوک ہڑتالی اور احتجاجی کیمپ لگایا تھا، تاکہ لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنان کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے کے لیے انتظامیہ پر دباؤ ڈالا جاسکے۔