سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی 250 ارب روپے کی پیشکش مسترد کردی
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کراچی، اسلام آباد اور مری کے منصوبوں میں غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی زمین کی مد میں 250 ارب روپے جمع کرانے کی پیش کش کو مسترد کردیا۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں بینچ نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی سماعت کی، اس دوران بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اپنے خلاف تینوں مقدمات پر 200 ارب روپے جمع کرانے کی پیش کش کی گئی، جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ’بحریہ ٹاؤن کے خلاف فیصلے میں زمین کی مد میں 285 ارب روپے ادا کرنے کا کہا گیا تھا، اگر جرمانے کی رقم 40 فیصد بڑھائی تو رقم 300 ارب روپے سے زائد بنتی ہے‘۔
مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی کے قبضے میں موجود غیرقانونی زمین واگزار کروانےکا حکم
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ’بحریہ ٹاؤن کے خلاف تینوں کیسز کے الگ الگ فیصلے آئے تھے، کراچی کے بحریہ ٹاؤن کی الگ پیش کش کریں‘۔
اس دوران بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے کہا کہ کراچی کے بحریہ ٹاؤن کی 170 ارب جبکہ باقی اسلام آباد اور مری کے لیے 30 ارب روپے کی پیش کش کرتے ہیں۔
جس پر عدالت نے بحریہ ٹاؤن کی 200 ارب روپے کی پیشکش مسترد کردی اور جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کراچی، اسلام آباد اور مری کی مناسب طریقے سے الگ الگ پیش کش دیں۔
اس پر بحریہ ٹاؤن نے اپنی پیشکش کو بڑھا کر 250 ارب روپے کردیا، جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب یہ کوئی مناسب طریقہ نہیں، نیب کو کہتے ہیں ریفرنس فائل کریں۔
اس پر وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ایک ہفتے کا وقت دے دیں، اتنی بڑی غلطی نہیں ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ غلطی ایک 2 کینال کی ہوتی ہے، ہزاروں ایکڑ کی نہیں۔
بعد ازاں عدالت نے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کو تینوں مقدمات کی الگ الگ پیش کش تحریری طور پر دینے کی ہدایت کردی۔
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے حکومت سندھ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بحریہ ٹاؤن کراچی کے قبضے میں موجود غیر قانونی اراضی کا قبضہ واگزار کروانے کی ہدایت کی تھی۔
ساتھ ہی عدالت نے حکم دیا تھا کہ 59 غیر قانونی ٹیوب ویل اور زمین کی خرید و فروخت کی رقم کی ادائیگی سے متعلق نیب کارروائی کرے اور اس سلسلے میں الگ ریفرنس دائر کیا جائے۔
جسٹس عظمت سعید نے مزید کہا تھا کہ اگر ریفرنس دائر نہ ہوئے اور عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ ہوا تو نیب کے خلاف کارروائی کریں گے۔
بحریہ ٹاؤن کیس
4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس: نیب کے عدم تعاون پر سپریم کورٹ برہم
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔
عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں دیے گئے فیصلے پر عمدرآمد کےلیے ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
تبصرے (1) بند ہیں