• KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm

امریکی تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن

شائع January 12, 2019 اپ ڈیٹ January 15, 2019
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ—فائل فوٹو
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ—فائل فوٹو

امریکی حکومت اپنی تاریخ کے طویل ترین شٹ ڈاؤن کے 22 ویں روز میں داخل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کے 8 لاکھ ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔

یہ شٹ ڈاؤن میکسکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے کانگریس کی جانب سے فنڈز نہ جاری کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹس کے درمیان پیدا ہونےوالی رسہ کشی کا نتیجہ ہے۔

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق کانگریس نے امریکی صدر کے مطالبے پر دیوار کی تعمیر کے لیے 5 ارب 70 کروڑ ڈالر فنڈز کے اجرا کی منظوری دینے سے انکار کردیا تھا جس کی پاداش میں ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومتی اداروں کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ پر دستخط کرنے سے انکارکردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا: ڈونلڈ ٹرمپ کا ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا قوی امکان

بجٹ جاری نہ ہونے کی وجہ سے فیڈرل بورڈ آف انویسٹیگیشن(ایف بی آر) کے ایجنٹس، ایئر ٹریفک کنٹرولر اور میوزیم کے ملازمین اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں۔

حالیہ شٹ ڈاؤن 22 ویں روز میں داخل ہونے کے بعد حکومتی تاریخ کے طویل ترین شٹ ڈاون کی صورت اختیار کرچکا ہے، اس سے قبل طویل ترین شٹ ڈاؤن سابق صدر بل کلنٹن کے دورِ حکومت میں 96-1995 میں ہوا تھا جس کی مدت 21 روز تھی۔

قابلِِ ذکر بات یہ ہے کہ امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی ہنگامی صورتحال نافذ کرنے کے خطرات کو کم کردیا، ورنہ اس سے قبل انہوں نے کانگریس کی منظوری کے بغیر فنڈز حاصل کرنے کے لیے قومی ایمرجنسی نافذ کرنے کی دھمکی دی تھی، ان کا کہنا تھا کہ ’میں اتنی جلدی یہ نہیں کرنےوالا‘۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکا میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی دھمکی

ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کو ’آسان راِہِ فرار‘ قرار دیا اور کہا کہ کانگریس کو اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے 5 ارب 70 کروڑ ڈالر کے فنڈز منظور کرنے ہوں گے۔

دوسری جانب ڈیموکریٹس بھی اپنے اقدام پر ڈٹے نظر آرہے ہیں اور امریکی صدر کو دیوار کی تعمیر کے لیے فنڈز جاری کرنے سے انکاری ہیں جن کی پوری انتخابی مہم ہی سرحدی معاملات کو سخت کرنے اور پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے دیوار کی تعمیر کے گرد گھومتی تھی۔

لوگ سامان بیچنے پر مجبور

دوسری جانب تنخواہیں نہ ملنے کے سبب مالی مشکلات کا شکار وفاقی اداروں کے ملازمین اپنے گھروں کا سامان بیچنے پر مجبور ہوگئے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کریگ لسٹ نامی اشتہاری ویب سائٹس پر کم قیمت میں اپنا ذاتی سامان فروخت کرنے والے افراد کے اشتہارات کا انبار لگ گیا۔

یہ بھی پڑھیں: شٹ ڈاؤن ختم کرنے کیلئے 6 بل منظور، ڈونلڈ ٹرمپ کا بل مسترد

اور لوگ بچوں کے کھلونوں سے لے کر بستروں تک فروخت کرنے کے اشتہار ڈال رہے ہیں جن کے لیے ’حکومتی شٹ ڈاؤن اسپیشل‘نامی کیٹیگری بنائی گئی ہے۔

واضح رہے کہ 8 لاکھ ملازمین میں سے ساڑھے 3 لاکھ ملازمین کو جبری رخصت پر بھیجا جاچکا ہے جبکہ بقیہ ملازمین بغیر تنخواہوں کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔

دوسری جانب متعدد افراد نے مالی مشکلات کے باعث بے روزگاری کا وظیفہ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دینا شروع کردی ہیں جبکہ واشنگٹن ڈی سی میں کچھ فوڈ بینکس تنخواہوں سے محروم افراد کو مفت کھانا بھی فراہم کررہے ہیں۔

فنڈنگ بل منظور

ڈیموکریٹس اراکین کی اکثریت پر مشتمل امریکی ایوانِ نمائندگان نے شٹ ڈاؤن کے باعث بند ہوجانے والے کچھ وفاقی اداروں کو فنڈز جاری کرنے کے لیے بل منظور کرلیا۔

ایوان میں پیش کردہ بل 179 کے مقابلے میں 240 اراکین کی حمایت سے منظور ہوا جس میں چند ریپبلکن اراکین نے بھی اس کی حمایت کی۔

اس بل کی منظوری سے فنڈنگ سے محروم وفاقی اداروں میں سے دو اداروں محکمہ داخلہ اور تحفظ ماحولیات ایجنسی کے فنڈز بحال ہوجائیں گے۔

امریکی شٹ ڈاؤن کی تاریخ

اگر ہم امریکی شٹ ڈاؤن کی بات کریں تو اس کا آغاز 1976 میں ہوا تھا اور اب تک 21 مرتبہ امریکا کو اس شٹ ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

امریکی ویب سائٹ واکس کے مطابق 1976 میں امریکی صدر جیرالڈ فورڈ کے دور میں پہلا شٹ ڈاؤن 30 ستمبر سے 11 اکتوبر تک جاری رہا۔

امریکی تاریخ کا دوسرا شٹ ڈاؤن 1977 میں صدر جمی کارٹر کے دور میں ہوا اور یہ 30 ستمبر سے 13 اکتوبر تک رہا تھا۔

تاہم اس شٹ ڈاؤن کے اختتام کے کچھ روز بعد ہی 31 دسمبر 1977 کو امریکا میں تیسرا شٹ ڈاؤن ہوا جو 9 نومبر تک جاری رہا۔ امریکی کا چوتھا شٹ ڈاؤن بھی 1977 میں ہی ہوا، جس کا دورانیہ 30 نومبر سے 9 دسمبر تک تھا۔

اس کے بعد 1978 میں صدر جمی کارٹن کے دور میں ہیں امریکا میں ایک اور شٹ ڈاؤن ہوا، جو 30 ستمبر سے 18 اکتوبر تک جاری رہا۔ امریکی صدر جمی کارٹن کی ہی تاریخ کا پانچواں شٹ ڈاؤن 30 ستمبر سے 12 اکتوبر 1979 تک ہوا۔

بعد ازاں امریکی میں 1981 میں 20 سے 23 نومبر کے درمیان شٹ ڈاؤن ہوا، اس دوران امریکا کے صدر رونلڈ ریگین تھے۔

امریکی تاریخ میں آٹھواں شٹ ڈاؤن 1982 میں 30 ستمبر سے 2 اکتوبر کے درمیان ہوا، اسی سال کا دوسرا شٹ ڈاؤن 17 دسمبر کو شروع ہوا جو 21 دسمبر کو ختم کیا گیا۔

اگلے ہی سال 1983 میں 10 سے 14 نومبر تک امریکی تاریخ کا 10واں شٹ ڈاؤن کیا گیا جبکہ 30 ستمبر سے 3 اکتوبر 1984 میں بھی امریکا میں شٹ ڈاؤن ہوا، تاہم یہ شٹ ڈاؤن ختم ہوتے ہی دوبارہ شروع ہوا اور 5 اکتوبر تک جاری رہا۔

رونلڈ ریگین کے دور کا ایک او شٹ ڈاؤن 1986 میں 16 سے 18 اکتوبر تک ہوا جبکہ 1987 میں 18 سے 20 دسمبر تک بھی امریکا میں شٹ ڈاؤن کیا گیا۔

اس کے بعد امریکی تاریخ کا 15واں شٹ ڈاؤن 1990 میں 5 اکتوبر سے 9 اکتوبر تک ہوا، اس دوران امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش تھے۔

بعدازاں 1995 میں صدر بل کلنٹن کے دور میں 13 سے 19 نومبر تک شٹ ڈاؤن کیا گیا، جس کے بعد انہیں کے دور میں دسمبر 1995 سے جنوری 1995 تک ایک مرتبہ پھر شٹ ڈاؤن ہوا۔

امریکا میں 18واں شٹ ڈاؤن 2013 میں صدر باراک اوباما کے دور میں ہوا اور یہ یکم سے 17 اکتوبر تک جاری رہا تھا۔

اس کے بعد گزشتہ سال صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں 3 شٹ ڈاؤن ہوئے، جن کا آغاز 20 جنوری 2018 سے ہوا اور وہ 3 دن بعد 23 جنوری کو ختم ہوگیا۔

سال 2018 کا دوسرا شٹ ڈاؤن 9 فروی کو ہوا جو صرف ایک ہی روز میں ختم کردیا گیا۔

تاہم گزشتہ برس 22 دسمبر سے شروع ہونے والا امریکی تاریخ کا 21واں شٹ ڈان تاحال جاری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024