سزائے موت کے 'نفسیاتی قیدی'کی پھانسی کیلئے 15 جنوری کی تاریخ مقرر
لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ذہنی مرض شیزوفرینیا (جس میں مریض کی شخصیت بے ربط، منتشر ہوجاتی ہے) میں مبتلا سزائے موت کے قیدی خضر حیات کو تختہ دار پر لٹکانے کی تاریخ 15 جنوری مقرر کردی۔
ڈسٹرکٹ سیشن جج خالد نواز کے دفتر سے جاری ہونے والے ڈیتھ وارنٹ کے مطابق سابق پولیس کانسٹیبل خضر حیات کو سینٹرل جیل لاہور میں سزائے موت دی جائے گی۔
خضر حیات کو ساتھی پولیس اہلکار کو قتل کرنے پر اکتوبر 2001 میں مجرم قرار دیا گیا تھا، جبکہ ٹرائل کورٹ نے دو سال بعد انہیں سزائے موت سنائی تھی۔
دسمبر 2018 میں لاہور ہائی کورٹ نے خضر کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کے لیے ان کی والدہ کی جانب سے دائر درخواست خارج کردی تھی۔
عدالت کی جانب سے تاریخ مقرر کیے جانے کے بعد جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) نے خضر حیات کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھیں: لاہور: میڈیکل بورڈ کی سزائے موت کے قیدی کی دماغی مریض ہونے کی تصدیق
جے پی پی کے بیان میں کہا گیا کہ 'خضر حیات کے ڈیتھ وارنٹ جاری کرنا قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے، جس نے واضح طور پر حکام کو خضر کے ڈیتھ وارنٹ اس وقت تک جاری کرنے سے روک دیا تھا جب تک سپریم کورٹ کا لارجر بینچ، ذہنی بیماری میں مبتلا سزائے موت کے قیدیوں کے معاملے کا کوئی فیصلہ نہیں سنا دیتا۔'
جے پی پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال کا کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل خضر حیات کی سزائے موت پر عملدرآمد ناصرف انتہائی ظالمانہ ہے بلکہ بین الاقوامی ذمہ داری کی بھی خلاف ورزی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ذہنی مریض کے ڈیتھ ورنٹ حاصل کرکے جیل حکام نے دوسرے مریضوں کو بھی پھانسی دینے کی راہ ہموار کردی ہے۔'
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی خضر حیات کے بلیک وارنٹ دو بار جاری ہوچکے ہیں اور دونوں بار لاہور ہائی کورٹ نے ان کی پھانسی پر عملدرآمد روک دیا تھا۔
جون 2015 میں خضر حیات کے بلیک وارنٹ جاری کیے گئے جسے ہائی کورٹ نے آخری لمحات میں منسوخ کردیا تھا۔
اس کے بعد جنوری 2017 میں لاہور کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے خضر کے ایک بار پھر ڈیتھ وارنٹ جاری کیے لیکن اس بار بھی ہائی کورٹ نے سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا تھا۔