جیل میں ٹی وی نہیں، صرف ایک اخبار دیا جاتا ہے، نواز شریف
لاہور: سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اسیر قائد میاں محمد نوازشریف نے جیل میں ٹی وی نہ ملنےکا شکوہ کردیا، ان کا کہنا تھا کہ جیل میں صرف ایک اخبار دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں آج (10 جنوری کو) ملاقات کے دن پر نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اپنے بیٹے جنید صفدر کے ہمراہ پہنچیں جبکہ نواز شریف کی والدہ نے بھی جیل میں ان سے ملاقات کی۔
والدہ نواز شریف اپنے بیٹے سے ملاقات کے دوران آبدیدہ ہوگئیں، اس دوران مرحومہ بیگم کلثوم نواز کا تذکرہ بھی ہوا جس پر نواز شریف نے شکوہ کیا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں قید کے دوران انہیں کلثوم نواز کی خیریت دریافت کرنے کی غرض سے ایک فون کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی، جس کا انہیں اب تک شدید صدمہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کے ’شیر‘ ان کے ساتھ ہیں، مریم نواز
نواز شریف نے بتایا کہ ان کی صحت ٹھیک ہے لیکن وہ ملک کی معاشی صورتحال پر پریشان ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے سردی کے موسم میں بھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی قلت پر حیرانی کا اظہار کیا۔
اس موقع پر ان کے اہلِ خانہ ان کے لیے گھر کا کھانا، ادویات، تازہ پھل اور خشک میوہ جات بھی لائے۔
اہلِ خانہ کے علاوہ نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، رانا ثنا اللہ، رانا تنویر حسین اور دیگر سے بھی ملاقات کی جبکہ جیل کے باہر سیکڑوں کی تعداد میں کارکنان بھی پہنچے اور نعرے بازی کی، اس دوران کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی۔
مزید پڑھیں: نواز شریف سے والدہ اور مریم نواز کی کوٹ لکھپت جیل میں ملاقات
دوسری جانب جیل ذرائع نے سابق وزیراعظم کی خرابی صحت کے حوالے سے خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف خیریت سے ہیں، ان کا روزانہ کی بنیاد پر چیک اپ کیا جاتا ہے جس میں ان کا بلڈ پریشر لیول اور شوگر بھی چیک کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 24 دسمبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے قومی احتساب بیورو(نیب) کی جانب سے دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فیلگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں بری کردیا تھا جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر علیحدہ علیحدہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی درخواست منظور
علاوہ ازیں نواز شریف کو عدالت نے 10 سال کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔
مذکورہ فیصلے کے بعد نواز شریف کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تاہم بعد میں ان ہی کی درخواست پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کردیا گیا تھا۔