افغانستان: خواتین کے حقوق میں مذہبی رہنما اہم رکاوٹ
افغان خواتین کے ایک گروپ جس میں اراکین اسمبلی اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم خواتین شامل ہیں، کو مذہبی رہنماؤں کی جانب سے ناپسندیدگی کے ساتھ دیکھا جارہا ہے۔ یہ خواتین ایک مشترکہ مہم کے تحت اسلام کے ذریعے خواتین کے حقوق میں اضافے اور فروغ کی امید رکھتی ہیں۔
انتہاء درجے کے قدامت پسند اور مردانہ تسلط کے حامل ملک میں جہاں مذہب کی گرفت اکثر معاملات میں قانون کی بالادستی سے کہیں زیادہ مضبوط ہے، آئین کے تحت دیے گئے حقوق کے حصول کے لیے خواتین کی راہ میں مذہبی رہنما ایک بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
رکن اسمبلی فوزیہ کوفی، جو خواتین کے حقوق کے لیے بے باک اور متحرک رہتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ”مولویوں کا کردار فیصلہ کن ہے، اس لیے کہ ہم ایک اسلامی قوم ہیں اور مسجدیں مسلسل خواتین کے خلاف استعمال ہوتی ہیں۔ تو خواتین ان مسجدوں کو اپنے حقوق کے لیے کیوں استعمال نہ کریں؟“
کوفی کا تعلق بدخشاں صوبے سے ہے جو زیادہ تر دیہی علاقوں پر مشتمل ہے، وہ ملک کی مذہبی اشرافیہ کے مردوں سے بات چیت کرتی ہیں کہ وہ جمعہ کی نماز سے پہلے اپنے خطبے میں خواتین کے حقوق کی بات کریں، خاص طور پر ان مساجد میں جہاں حکومت پیش امام کو تنخواہ کی ادائیگی کرتی ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس طرح کی باتوں کو مغرب سے درآمد کردہ نظریات کا حصہ سمجھا جاتا ہے، امید ہے کہ ان خطبوں سے خواتین کے خلاف تشدد کے مسائل کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس مہم کا آغاز کابل سے ہوگا اور پھر بعد میں اس کو صوبے بھر میں جاری کیا جائے گا، لیکن اس پر صرف ساڑھے تین ہزار مساجد میں ہی عمل ہوسکے گا، جنہیں حکومت فنڈ فراہم کرتی ہے۔ تین کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار مساجد ہیں۔
اس مہم کے لیے مذہبی رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار ہوگا۔
گزشتہ اپریل کے دوران قدامت پسند اراکین پارلیمنٹ نے خواتین کے خلاف تشدد پابندی کو قانونی حیثیت دینے کی بحث کو غیر اسلامی قرار دے کر اس میں غیر معینہ مدت تک تاخیر کرنے کی کوشش کی۔
کوفی کی کوششوں سے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے قانون کو طاقت مل سکی۔
جیسے جیسے غیرملکی افواج کے انخلاء کا وقت قریب آرہا ہے، بہت سی خواتین یہ محسوس کررہی ہیں کہ وہ مردوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں، جو روایتی طور پر ان کے شدت سے مخالف ہیں۔
افغانستان کی ویمن پیس اینڈ سیکیورٹی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی بانی اور ڈائریکٹر وژمہ فروغ جو حقوق کے لیے سرگرم ہیں کا کہنا ہے کہ ”انہوں نے ہمیں بدنام کردیا ہے، اگر مقامی مولوی ہمارے خلاف ہوجائیں تو میں ایک صوبے میں نہیں جاسکتی اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد نہیں کرسکتی۔“
انہوں نے کہا کہ ”اس کا حل یہی ہے کہ ہم اس سلسلے میں مولویوں کی مدد حاصل کریں۔“
اس کے ایک منصوبہ یہ بھی زیر غور ہے کہ پیش اماموں کے لیے ایسی درسی کتابیں شایع کی جائیں جن میں اسلام کے تناظر میں خواتین کے حقوق سمجھائے جائیں۔
نائب وزیر برائے حج اور مذہبی امور عبدالحق عابد کے ساتھ خواتین کے حقوق میں اضافے کے لیے ایک مہم کے دوران مذہب کے استعمال کے حوالے سے کوفی کی بات چیت پچھلے نو مہینے سے جاری ہے۔
عبدالحق عابد نے رائٹرز کو بتایا کہ خواتین کو اسلام نے پاکیزہ مقام دیا ہے، لہٰذا ضرور اس بات کی ہے کہ پسماندہ صوبوں میں پیش امام لوگوں کو اس سلسلے میں تبلیغ کریں۔“












لائیو ٹی وی