چین کی اقوام متحدہ کے حکام کو سنکیانگ کے دورے کی 'مشروط' دعوت
چین نے اقوام متحدہ کے عہدیداران کو ملک کے مغربی صوبے سنکیانگ کے دورے کی مشروط دعوت دے دی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق چین کی جانب سے یہ دعوت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ مشعل باشیلے کے دسمبر کے اس بیان کے بعد دی گئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا دفتر سنکیانگ میں مسلم اقلیتوں کے تعلیمی کیمپس کی رپورٹس کی تصدیق کے لیے جانا چاہتا ہے۔
چین کے شمال مغربی خطے میں یوغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔
چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان لو کانگ نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ 'سنکیانگ ایک کھلا خطہ ہے جہاں ہم اقوام متحدہ سمیت تمام فریقین کو خوش آمدید کہتے ہیں، تاہم وہاں دورے کے لیے انہیں چین کے قانون اور ضوابط پر عمل کرنا ہوگا اور درست سفری طریقہ کار سے گزرنا ہوگا۔'
تاہم انہوں نے تنبیہ کی کہ اقوام متحدہ کے عہدیداران اور ماہرین سمیت تمام غیر ملکی شہریوں کو چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: چین میں یوغور مسلمانوں کو قید کیے جانے پر اقوام متحدہ کا اظہار تشویش
چین کی وزارت خارجہ بار بار یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ وہ سنکیانگ کے دورے کے لیے غیر ملکی صحافیوں کو عہدیداران کو خوش آمدید کہے گی۔
تاہم خطے میں جانے والے صحافیوں کو کئی بار حراست میں لیا جاچکا ہے اور پولیس کی جانب سے انہیں یوغورز کے نظر بندی کیمپوں میں جانے سے روکنے کے اقدامات سامنے آئے ہیں۔
چین نے دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے خلاف جنگ کے نام پر یوغور مسلم اقلیت پر طویل عرصے سے سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
تاہم پولیس کے اقدامات میں حالیہ سالوں میں شدت آئی ہے اور اقوام متحدہ کے آزاد پینل کا ماننا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ یوغورز اور دیگر مسلم اقلیتوں کو تعلیمی سینٹرز میں نظربند رکھا گیا ہے۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مسلم اقلیتوں کو نظر بند رکھنے کی وجہ خلاف ورزی ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ لمبی داڑھی رکھتے ہیں اور چہرے کا نقاب کرتے ہیں۔