• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس: نیب کے عدم تعاون پر سپریم کورٹ برہم

شائع January 7, 2019 اپ ڈیٹ January 9, 2019
اگر الاٹیز کے حقوق متاثر ہوئے تو ذمہ دار ملک ریاض  ہونگے—فائل فوٹو
اگر الاٹیز کے حقوق متاثر ہوئے تو ذمہ دار ملک ریاض ہونگے—فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن کراچی عملدرآمد کیس میں ڈائریکٹر جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل نیب سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی، ساتھ ہی عدالت نے سپارکو کو بھی ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے تفصیلات لینے کا حکم دے دیا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت بحریہ ٹاؤن سے متعلق نیب کی جانب سے عدم تعاون پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن سے متعلق جو رپورٹ جو رپورٹ جمع کروانی تھی وہ کیوں نہیں کروائی گئی؟ کام نہیں ہوتا تو بتادیں۔

مزید پڑھیں: ’بحریہ ٹاؤن کو دھوکے سے زمین دی گئی، چاندی دے کر سونا لے لیا گیا‘

انہوں نے نیب کے خصوصی پراسیکیوٹر سے مکالمہ کیا کہ 3 ماہ کا وقت دیا گیا تھا لیکن دھیلے کا کام نہیں کیا، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ایسی بات نہیں ہے۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا جارہا، آپ ریاست پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں، مگر آپ نے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے جعلی بینک اکاؤنٹس کی جے آئی ٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کراچی والے بحریہ ٹاؤن کا ایک اور جگہ حوالہ دیا گیا، جے آئی ٹی اس پر اپنی تحقیقات مکمل کر لیں آپ کیا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوسری عدالت میں رپورٹ پیش کردی گئی، یہاں کیوں نہیں کی جارہی؟ اس معاملے پر کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ سپارکو نے بھی اپنی رپورٹ پیش نہیں کی، اس معاملے پر سپارکو کو توہین عدالت کا نوٹس کیوں نہ جاری کریں۔

دوران سماعت جسٹس عظمت سعید نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم نے فیصلہ تو کرنا ہے، تنخواہ کون دے گا؟ ریاست کے ادارے ریاست کے ماتحت نہیں، اگر کسی کو کوئی مسئلہ ہے تو وہ بتانے کے لیے تیار نہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن اپنا کیس ہار چکا، نظر ثانی بھی خارج ہوئی، اپنے موکل کو سمجھائیں کہ عدالت کے ساتھ تعاون کریں۔

اس پر ملک ریاض کے وکیل علی ظفر نے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن نے تمام تفصیلات جمع کروادی ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر الاٹیز کے حقوق متاثر ہوئے تو ذمہ دار ملک ریاض ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کی جانب سے پیش رفت نہیں ہو رہی، جس پر ہمیں مایوسی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ہمارا صبر ختم ہورہا ہے، مجھے معلوم ہے کہ سپارکو کے ڈی جی میجر جنرل ہیں۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ تھرڈ پارٹی کے تحفظ کا آپشن اختیاری ہے، مجبور نہ کریں کہ ہم سختی کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ’سپریم کورٹ بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کا ہر صورت تحفظ کرے گی‘

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کہہ دیں کہ عمل نہیں ہوسکتا تو ہم ابھی دے دیتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے آئندہ سماعت پر ڈی جی سپارکو کو طلب کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی عملدرآمد کیس میں ڈائریکٹر جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل نیب سے تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی، ساتھ ہی عدالت نے سپارکو کو بھی ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے تفصیلات لینے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ نیب اپنے ایکشن سے پیش رفت بتائے، جس کے بعد مذکورہ کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی گئی۔

بحریہ ٹاؤن کیس

خیال رہے کہ 4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔

عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔

بعد ازاں عدالت کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں دیے گئے فیصلے پر عمدرآمد کےلیے ایک خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024