طالبان نے امن مذاکرات کے مقام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کردیا
افغان طالبان نے ریاض کی جانب سے افغان حکومت کو طالبان سے امن مذاکرات میں شامل کرنے کی خواہش کو مسترد کرتے ہوئے امریکا، سعودی عرب سے رواں ماہ طے شدہ مذاکرات کے مقام کو تبدیل کرکے انہیں قطر میں منعقد کرنے کا مطالبہ کردیا۔
ان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں 17 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے جنہیں طالبان رہنماؤں اور امریکا کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد کے درمیان غیر ملکی افواج کے انخلا اور 2019 میں ممکنہ جنگ بندی پر بحث کے لیے عمل میں لایا جانا تھا۔
مغرب کی حمایت یافتہ افغان حکومت کو مذاکرات کی نشست پر جگہ ملنے کے عالمی دباؤ کے باوجود طالبان رہنماؤں نے کابل کی براہ راست بات چیت کی پیش کش کو ٹھکرا دیا۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ زور پکڑنے لگا
افغانستان میں مقیم سینئر طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’ہمیں آئندہ ہفتے ریاض میں امریکی حکام سے ملاقات کرنی تھی اور گزشتہ ماہ ابو ظہبی میں بھی نامکمل رہ جانے والے امن مرحلے کو بھی آگے بڑھانا تھا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام چاہتے ہیں کہ ہم افغان حکومت کے وفد سے ملاقات کریں، جو کہ ہمارے لیے مشکل امر ہے اور اس لیے ہم نے سعودی عرب میں اس ملاقات سے انکار کردیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ طالبان مذاکرات کے مقام کو تبدیل کرکے اسے قطر میں کروانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں امن: ایران اور طالبان کے مابین مذاکرات
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تصدیق کی کہ ان کی تنظیم نے سعودی عرب میں ملاقات سے منع کردیا ہے تاہم انہوں نے ملاقات کے نئے مقام کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔
واضح رہے کہ افغانستان میں امریکی سفارت خانے نے معاملے پر اپنی رائے دینے سے انکار کیا ہے۔
ایک اور سینئر طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ تنظیم نے سعودی عرب کو واضح کردیا ہے کہ طالبان کی اس مقام پر افغان حکومت سے ملاقات ناممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سب جانتے ہیں کہ افغان حکومت نہیں چاہتی کہ امریکا اور اس کی اتحادی افواج افغانستان چھوڑ کر جائیں جبکہ ہم نے تمام غیر ملکی افواج کو اپنے ملک سے نکالنے کی بھاری قیمت ادا کی ہے تو ہم کیوں افغان حکومت سے بات کریں۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 7 جنوری 2019 کو شائع ہوئی