• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

آصف زرداری کی سپریم کورٹ سے جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا

شائع January 6, 2019

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ مسترد کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرادی۔

انہوں نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں استدعا کی کہ عدالت جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کردے کیوں کہ ان پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔

آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی غلط کام نہیں کیا جس کا الزام ان پر لگایا گیا ہے، جے آئی ٹی نے گواہوں کے بیانات اور دستاویزات ہمیں فراہم نہیں کیں اور جے آئی ٹی کے الزامات سیاسی انتقام کا نتیجہ ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ دستاویزات کو دیکھے بغیر الزام لگانا آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہے اس لیے سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کر دے۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی کی زرداری، اومنی گروپ کے اثاثے منجمد کرنے کی درخواست

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ لیک ہونے سے عدالت کا تقدس پامال ہوا اور رپورٹ لیک کروا کے ہمیں بدنام کیا گیا، میڈیا پر بحث کر کے لوگوں کے ذہنوں میں ہمارے خلاف زہر ڈالا گیا۔

آصف علی زرداری نے کہا کہ رپورٹ میڈیا میں لیک ہونے کے بعد مشکوک ہو چکی جبکہ وفاقی وزرا کے رپورٹ پر بحث و مباحثے بھی اسے مشکوک بنا رہے ہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں آصف علی زرداری کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ جے آئی ٹی نے حکومت کی آلہ کار بن کر ان پر اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ہتک عزت کی۔

پی پی پی کے شریک چیئرمین کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست 17 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کہا گیا کہ زرداری گروپ اور زرداری خاندان جے آئی ٹی کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور زرداری گروپ و خاندان جے آئی ٹی رپورٹ پر دفاع کا حق رکھتے ہیں۔

آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے ذریعے اور سپریم کورٹ کی مہر لگوانے کے لیے معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے کی تجویز دی گئی جبکہ جے آئی ٹی کے پاس اختیار نہیں ہے کہ وہ معاملہ نیب کو بھجوانے کی تجویز دے۔

یہ بھی پڑھیں: 'آپ کو کام نہیں کرنا تو حکومت چھوڑ دیں'، چیف جسٹس سندھ حکومت پر برہم

پی پی پی کے شریک چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ اس تجویز پر اگر عدالت فیصلہ دے تو یہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہو گی۔

آصف علی زرداری نے الزام لگایا کہ جے آئی ٹی نے زرداری گروپ اور آصف زرداری کے خلاف متعصبانہ رویہ اختیار کیا جبکہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آصف زرداری اور فریال تالپور کو ان کے ووٹرز کے سامنے نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ فریال تالپور اپنے تمام اثاثے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور باقی اداروں میں جمع کروا چکی ہیں۔

خیال رہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی گئی تھی جو بعد ازاں منظر عام پر آگئی اور نیوز چینلز پر اس حوالے سے تبصروں کا سلسلہ شروع ہوا۔

مذکورہ جے آئی ٹی رپورٹ میں سپریم کورٹ سے زرداری گروپ پرائیوٹ لمیٹڈ اور اومنی گروپ کے اثاثے منجمد کرنے کے احکامات جاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

جے آئی ٹی کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں ملنے والے اہم ترین شواہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ 1981 میں 600 روپے اور 2001 میں 6 ہزار روپے کی سرمایہ کاری سے آغاز ہونے والے بالترتیب زرداری اور اومنی گروپ نے اثاثوں کو غلط قرضوں، حکومتی فنڈز، کک بیکس اور جرائم کی کارروائیوں سے اکھٹے کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شواہد کے مطابق ان گروپس کی حوالہ ہنڈی کے ذریعے منی لانڈرنگ کی ایک تاریخ موجود ہے‘۔

مزید پڑھیں: چیف جسٹس کا سیاستدانوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر نظرثانی کا حکم

جے آئی ٹی کی رپورٹ میں عدالت عظمیٰ سے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) سے زیر تفتیش کمپنیوں کی ملکیت کو تبدیل نہ کرنے کے احکامات جاری کرنے کا بھی کہا گیا تھا۔

قبل ازیں جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹ جمع کرواتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری، ہمشیرہ فریال تالپر اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کی تجویز بھی دی تھی۔

تاہم 31 دسمبر کو عدالت نے اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے ناموں کو ای سی ایل میں ڈالنے کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کابینہ کو اپنے 27 دسمبر کے فیصلے پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024