'اب وہ وقت نہیں رہا کہ امیر آدمی مرضی سے سرکاری زمین لیز پر لے لیتا تھا'
لاہور: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اب وہ وقت نہیں رہا کہ شہر کا امیر آدمی مرضی سے سرکاری زمین لیز پر لے لیتا تھا اور ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اس کے کہنے پر لیز جاری کر دیتا تھا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سرکاری اراضی پر پیکجز مال کی تعمیر کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کی۔
اس موقع پر پیکجز فیکٹری کے مالک بابر علی عدالت میں پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے حکم پر چیئرمین نیب کی چیف جسٹس سے چیمبر میں ملاقات
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ پیکجز فیکٹری کی لیز 15 اگست 2015 سے ختم ہو چکی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لیز پر لی گئی زمین پر پیکجز مال بنا دیا گیا ہے، اگر لیز ختم ہو چکی ہے تو حکومت نے زمین واپس کیوں نہیں لی۔
چیف جسٹس نے پیکجز مال کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں آپ نے پیکجز فیکٹری کے لیے زمین کب لیز پر لی، جس پر ڈاکٹر پرویز حسن ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 2 فروری 1957 کو 30 سال کے لیے زمین لیز پر لی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کتنی زمین تھی؟ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ 231 کنال 19 مرلے زمین پیکجز کو لیز پر دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ میں 18ویں آئینی ترمیم پر بحث نہیں ہوئی، چیف جسٹس
اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ بورڈ آف ریونیو کے ڈی سی کدھر ہیں اور ساتھ ہی عدالت نے ڈپٹی کمشنر لاہور اور بورڈ آف ریونیو کے حکام کو 20 منٹ میں عدالت پہنچنے کا حکم دیا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پیکجز مال مالکان 2015 سے لیز ختم ہونے کے باوجود کرایہ بھی ادا نہیں کر رہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک تو نیسلے نے ہمیں بہت پریشان کر رکھا تھا، پانی مفت لیتے رہے ہیں، دودھ میں بھی خرابیاں تھیں۔
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ عدالت سرکاری اراضی کی کسٹوڈین ہے، ہمیں بتائیں لیز پیکجز فیکٹری کی زمین پر مال کیسے بنایا گیا، اللہ نہ کرے کہ کوئی اس طرح کی چیز نکلے، اگر ایسا ہوا تو چیزیں بہت مختلف ہوں گی۔
پیکجز مال کے وکیل پرویز حسن ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ پیکجز مال پرائیویٹ زمین پر تعمیر کیا گیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈی سی کہتا ہے کہ لیز میں توسیع کے لیے 4 سال سے درخواست پڑی ہوئی ہے۔
وکیل نے کہا کہ پیکجز مال اور فیکٹری کی زمین قانونی طور پر لیز پر لی گئی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی لیز ابھی منسوخ کر رہے ہیں، آئندہ سے ساری لیز اوپن آکشن کے ذریعے دی جائیں گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب وہ وقت نہیں رہا کہ شہر کا امیر آدمی مرضی سے سرکاری زمین لیز پر لے لیتا تھا اور ڈی سی اس کے کہنے پر لیز جاری کر دیتا تھا۔
مزید پڑھیں: عدالتی حکم کے باوجود آبپارہ میں سڑک کی بندش پر چیف جسٹس برہم، وزارت دفاع کا مؤقف مسترد
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ ہم نے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سارے پیٹرول پمپس کی لیز منسوخ کی، پہلے 15 ہزار سالانہ آتا تھا اب ڈیڑھ کروڑ روپے مل رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ریاست کی زمین کے محافظ ہیں، اٹھا لیں اپنی فیکٹری۔
بعد ازاں عدالت نے پنجاب حکومت کے نمائندے، ڈی سی لاہور اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو طلب کرتے ہوئے از خود نوٹس کی سماعت شام 5 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔