جمال خاشقجی قتل: سعودی عرب کا 'ٹرائل' ناکافی ہے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق سعودی عرب کے ٹرائل کو 'ناکافی' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح ٹرائل کی شفافیت کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔
قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کی رپورٹ مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ انسانی حقوق کی ترجمان روینا شام داسانی نے بین الاقوامی اداروں کو ملوث کرکے معاملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
ان کا یہ مطالبہ سعودی پراسیکیوٹر کی جانب سے معاملے میں 5 مشتبہ افراد کو سزائے موت دیئے جانے کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
روینا شام داسانی کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے ہمیشہ سزائے موت کی مخالفت کی ہے۔
گزشتہ روز سعودی عرب کی عدالت میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے 11 میں سے 5 مبینہ قاتلوں کی سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔
آزادانہ تحقیقات
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی انسانی حقوق کے کئی گروپ جمال خاشقجی کے قتل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر سماح حدید کا کہنا تھا کہ ’جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی عرب کی ممکنہ شمولیت اور سعودی عرب کے عدالتی نظام میں آزادی کی کمی کی وجہ سے کسی بھی تفتیش اور ٹرائل کی غیر جانبداری پر سوال اٹھایا جائے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اسی وجہ سے اقوام متحدہ کی قیادت میں آزادانہ تحقیقات کی ضرورت ہے‘۔
جمال خاشقجی قتل
سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل تو ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا۔
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا۔
تاہم ترک حکام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑے بیگ میں لے جانے کی نئی ویڈیو منظر عام پر آگئی
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔
اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ‘لاپتہ صحافی کو سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا’
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔
17 اکتوبر کو جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔
دریں اثنا 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔
علاوہ ازیں گزشتہ ماہ امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔
مزید برآں دسمبر میں امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے سے متعلق قرارداد منظور کی جس میں سعودی حکومت سے جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ داران کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔