18ویں ترمیم کیس: رضا ربانی کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر میاں رضا ربانی کی 18ویں ترمیم کے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 18ویں ترمیم کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی کے وکیل نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز 18ویں ترمیم سے متعلق مختلف سوالات اٹھائے گئے تھے، تاہم مناسب ہو گا کہ اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت 18ویں ترمیم کا جائزہ نہیں لے رہی بلکہ اس سے متعلق چند ہسپتالوں کی تحلیل کا مسئلہ عدالت کے سامنے ہے۔
مزید پڑھیں: پارلیمنٹ میں 18ویں آئینی ترمیم پر بحث نہیں ہوئی، چیف جسٹس
سینیٹر میاں رضا ربانی کے وکیل نے بتایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد وضاحت کے لیے 19ویں ترمیم لائی گئی، عدالت کی آبزرویشن کا احترام کرتا ہوں تاہم مقدمے میں اپنے دلائل جاری رکھوں گا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نے ریمارکس دیے کہ اگر صوبے صحت کے شعبہ کی بہتری کے لیے کوشش نہ کریں تو کیا وفاقی حکومت مدد کے لیے نہ آئے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا صوبے کو صحت کے شعبہ کا مکمل اختیار دیدیا جائے، کیا وفاقی حکومت لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے گی؟
رضا ربانی نے جواب دیا کہ ہوسکتا ہے ان کی تشریح غلط ہو، آئین کی منشا ہے کہ صحت کا شعبہ صوبے دیکھیں گے، اگر ہسپتال صوبوں کو نہیں ملیں گے تو آئین کا آرٹیکل وقعت کھو بیٹھے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ’18ویں ترمیم کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے‘
جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 18ویں ترمیم کو عدالت نے آئینی اور درست قرار دیا، یہ کوئی قانونی سیاسی مسئلہ نہیں، عدالت کے سامنے چھوٹے یا بڑے صوبے کا نہیں بلکہ قانونی سوال ہے اور عدالت نے صرف قانونی نقطہ کی تشریح کرنی ہے۔
چیف جسٹس نے سینیٹر رضا ربانی کو مخاطب کرکے کہا کہ انہوں نے طویل سیاسی جدوجہد ہے اور سیاسی جدوجہد کرنے والی شخصیات کو چھوٹے یا بڑے صوبوں میں تفرقہ پیدا نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ وہ چاہتے ہیں کہ غریبوں کو صوبائی حکومتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے، وفاقی حکومت صرف ہسپتال بنا کر صوبے کے حوالے کر دے جبکہ وفاق صرف گرانٹ دے لیکن باقی کردار صوبوں کا ہو۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لائبریری اور میوزیم کو بھی صوبے ٹیک اوور کرلیں۔
مزید پڑھیں: نئی پارلیمنٹ سے 18ویں ترمیم میں تبدیلیاں کروائی جاسکتی ہیں، رضا ربانی
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت صوبے میں لائبریری اور میوزیم کو کنٹرول اور فنانس کر سکتی ہے۔
سینیٹر رضا ربانی نے بتایا کہ آئین لائبریری اور میوزیم کی حد تک وفاقی حکومت کو اختیار کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جناح ہسپتال کا تاریخی پس منظر دینے کا مقصد آئینی غلطی کی نشاندہی کرنا ہے، 1961 میں یہ ہسپتال صوبے کو مل جانا چاہیے تھا، تاہم تب سے یہ غلطی ہوتی چلی آئی ہے۔
عدالت نے سینٹر رضا ربانی کی 18ویں ترمیم کے معاملہ پر فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی جبکہ وفاق اور صوبہ پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔