• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

امریکا کی فوجی انخلا کی تردید، طالبان اور واشنگٹن مؤقف پر ڈٹ گئے

شائع December 31, 2018
—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

اسلام آباد: امریکی حکومت کی جانب سے پینترا بدلتے ہوئے یہ اعلان سامنے آنے کے بعد کہ اس کا افغانستان سے فوج واپس بلوانے کا کوئی ارادہ نہیں ،افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ ماہ امریکی حکام سے سعودی عرب میں ملاقات کریں گے۔

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ ’ہم جنوری میں امریکی حکام سے سعودی عرب میں ملاقات کریں گے اور ابو ظہبی میں نامکمل رہ جانے والی گفتگو کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے‘۔

اس سلسلے میں واشنگٹن میں موجود سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی، جو افغان امن عمل کے حوالے سے بات چیت کے لیے قطر میں موجود ہیں، جلد سعودی عرب کا دورہ کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا افغانستان سے نکل جائے یا سوویت یونین کی طرح شکست کا سامنا کرے، طالبان

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی وزیرخارجہ نے افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کے سلسلے میں ایک علاقائی حکمتِ عملی ترتیب دینے کے لیے افغانستان، ایران، چین اور روس کا سہ روزہ دورہ کیا تھا۔

تاہم اتوار تک یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ امریکا اور طالبان سعودی عرب میں ہونے والے آئندہ مذاکراتی عمل کے لیے اپنی پوزیشنز واضح کررہے ہیں۔

ایک جانب امریکا نے افغانستان سے اپنے فوجی دستے واپس بلوانے کا ارادہ منسوخ کردیا تو دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ وہ افغان حکومت کو اس عمل میں شامل کرنے سے قبل امریکی حکومت سے ایک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا کا افغانستان سے 50 فیصد سے زائد فوج واپس بلانے کا فیصلہ

اس سلسلے میں مختلف خبررساں اداروں کو ارسال کی گئی ایک ای میل میں طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ بات تمام اسٹیک ہولڈرز پر واضح کرچکے ہیں کہ ہم افغان حکومت ابھی بات نہیں کریں گے‘۔

خیال رہے کہ طالبان نے یہ موقف وائٹ ہاؤس کی جانب سے سامنے آنے والے بیان کے بعد اپنایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک پینٹاگون کو افغانستان سے فوج بلوانے کی ہدایت نہیں کی۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان گیریٹ مارکوئیس نے گزشتہ ہفتے سامنے آنے خبروں کی تردید کی تھی جس میں کہا جارہا تھا کہ امریکی صدر افغانستان میں تعینات فوجی دستوں کی تعداد میں نصف کمی کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ ’امریکا، افغانستان میں چین، روس اور ایران کو اہم کردار کے طور پر دیکھتا ہے‘

واضح رہےکہ فوجی انخلا کی خبروں سے امریکا میں اور بین الاقوامی طور پر افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ بندھ گیا تھا اور امریکی صدر کے فیصلے کو تبدیل کروانے کے لیے لابنگ پر غور کیا جارہا تھا۔

اس ضمن میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی سینیٹر لنزے گراہم نے وفد کے ہمراہ گزشتہ ہفتے افغانستان کا دورہ کیا تا کہ افغان صدر کو اس حوالے سے راضی کیا جاسکے کہ افغانستان میں اب بھی لڑائی جاری رکھنی پڑے گی۔

ایک بیان میں انہوں نے خبردار کیا کہ ’موجودہ صورتحال میں امریکی فوجوں کا انخلا ایک انتہائی خطرناک حکمتِ عملی ثابت ہوگا، اگر ہم موجودہ طریقہ کار پر ڈٹے رہتے ہیں تو ہم اپنے حاصل کی گئی تمام کامیابیاں کھو دیں گے اور دوسرے 9/11 کی راہ ہموار کریں گے‘۔


یہ خبر 31 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024