• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس: انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ چیلنج

شائع December 30, 2018
—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

وفاقی تحقیقات ادارے (ایف آئی اے) نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چینلج کردیا۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے نے اے ٹی سی سے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں برطانیہ سے مزید شواہد اکٹھا کرنے کے لیے 3 مہینے کی مہلت مانگی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ایف آئی اے ملزمان کے خلاف چالان جمع نہیں کراسکی

ایف آئی اے نے پیش کردہ درخواست میں مزید شواہد کے حصول کے لیے برطانیہ سے رابطہ کرنے کا کہا ہے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ ایف آئی اے نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے استغاثہ کو بھرپور کیس پیش کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

تحقیقاتی ادارے نے موقف اختیار کیا کہ دوملکوں کے درمیان رابطے جاری ہیں، مزید شواہد کے لیے وقت درکار ہے۔

خیال رہے کہ درخواست میں انسداد دہشت گردی کی عدالت اور ملزمان کو فریق بنایا گیا ہے۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے ایف آئی اے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے حتمی چالان بھی پیش کیا گیا جس کے بعد عدالت نے ملزم معظم علی، خالد شمیم اور محسن علی پر فرد جرم عائد کردی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

مزیدپڑھیں: برطانیہ: عمران فاروق قتل کیس میں نئی پیش رفت

اس حوالے سے بتایاگیا کہ ایف آئی اے نے برطانیہ سے مزید شواہد حاصل کرنے کے لیے 3 ماہ کا وقت مانگا تھا۔

علاوہ ازیں بتایا گیا کہ عمران فاروق قتل کیس میں تفتیشی افسر سمیت تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جاچکے ہیں۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے ایف آئی اے سے شواہد مکمل ہونے سے متعلق باضابطہ بیان طلب کیا تھا۔

ایف آئی اے نے شواہد مکمل ہونے کا بیان دینے کے بجائے درخواست دائر کی تھی کہ اسے شواہد حاصل کرنے کے لیے 3 ماہ کا دیے جائیں تاہم انسداد دہشت گردی عدالت نے ان کی یہ درخواست مسترد کردی تھی۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایجوئیر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کردیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا۔

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کیا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کومدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

6 دسمبر 2015 کو تین مبینہ ملزمان معظم علی ، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔

ایف آئی کی جانب سے ملزمان کے راہداری ریمانڈ کی درخواست کی گئی، عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے تینوں ملزمان کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا تھا۔

8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف نے انکشاف کیا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔

29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔

جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔

ویڈیو میں خالد شمیم نے کہا تھا کہ'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انھوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میںباقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا۔

28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا۔

10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024