• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

'اگر میرا مشورہ مان لیا جاتا تو آج مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہوتی'

شائع December 30, 2018
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار—فائل فوٹو
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار—فائل فوٹو

راولپنڈی: سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے اگر میرا مشورہ مان لیا جاتا تو شاید آج ملک میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہوتی۔

راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک کو اس وقت سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، اس وقت احتساب شفاف نہیں ہے، جو اپوزیشن پر طریقہ کار لاگو ہے وہ حکومت پر نہیں ہے۔

سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ میں اب مسلم لیگ(ن) میں نہیں ہوں، احتساب اس ملک کی ضرورت ہے مگر متنازع احتساب اس ملک کے لیے زہر قاتل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن صرف آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف نہیں بلکہ پوری جماعتیں ہیں اور جب اپوزیشن کے تحفظات دور ہوں گے تو پوری قوم کو نظر آئے گا۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ ن نے چوہدری نثار کے خلاف امیدوار میدان میں اتار دئیے

انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل ایسا ہونا چاہیے کہ اپوزیشن اور حکومت سب پر لاگو ہو، اس وقت ملک میں شفاف احتساب نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی کو احتساب پر نہیں طریقہ کار پر تحفظات ہیں، حکومت احتساب پر اپوزیشن کے تحفظات دور کرسکتی ہے لیکن اگر تحفظات دور نہ ہوئے تو احتساب کو انتقام تصور کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ احتساب حکومت نہیں ادارے کرتے ہیں، منی لانڈرنگ کا کیس 2015 کا ہے، موجودہ حکومت سب سے بڑی غلطی یہ کر رہی کہ وہ ہر فیصلے پر کہتی کہ ہم نے کیا ہے، جبھی تو احتساب سیاست کی نظر ہوتا ہے۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت جب کسی فیصلے کو ’اون‘ کرتی ہے تو احتساب متنازع ہوتا ہے، حکومت کو سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی بھی ملک اپوزیشن کے بغیر نہیں چل سکتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر میں چاہتا تو آج اقتدار میں ہوتا، میں نے وہ کھیل کبھی نہیں کھیلی، نہ میں اقتدار کا پجاری ہوں نہ میں ایسی سیاست کرتا، دوستی تعلق اپنی جگہ ہوتا ہے لیکن سیاست کو اصولوں کے تحت چلانا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن اور حکومت میں نیب کے حوالے سے کوئی اتفاق رائے ہوجائے تو یہ احتساب اور ملک کے لیے اچھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی ملک سیاسی استحکام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، اس وقت ملک میں شدید سیاسی بحران ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر میری بات اور مشورہ مانا جاتا تو آج شاید یہ مشکلات نہ ہوتی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کوئی غلط مشورہ نہیں دیا تھا، میں نے کہا تھا کہ بیانات میں جو تلخی ہے اور عدلیہ اور فوج کو براہ راست نشانہ بنانے کے جو الفاظ ہیں وہ نرم کریں، میں نے بس اتنا ہی کہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کرتارپور راہداری کھولنے کے بعد حکومت بھارت سے مذاکرات کے لیے جو منتیں کر رہی ہے وہ عمران خان کے اس بیان کے منافی ہے، جس میں انہوں نے پاکستانی قوم کی غیرت کی بات کی۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستانی قوم کی غیرت کے منافی ہے کہ ہم مودی حکومت سے مذاکرات کے لیے منت کریں، مذاکرات کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہوجانی چاہیے کہ مودی حکومت پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات نہیں چاہتی، یہ ان کے ایجنڈے میں نہیں ہے، ان کی حکومت کا ایجنڈا بدقسمتی سے مسلمان اور پاکستان دشمنی ہے، لہٰذا اس ماحول میں مذاکرات کی بات کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری نثار کی نواز شریف پر پہلی بار براہِ راست تنقید

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی طور پر ہم دباؤ میں ہیں، ہمارے اقتصادی اور معاشی مسائل شدید ہیں جس میں وقتی طور پر کمی آئی ہے۔

سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ہمیں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور غیر واضح طور پر چین سے بھی جو امداد ملی یہ وقتی ہے اور عمران خان کی جانب سے خودانحصاری کی بات مجھے کہیں نظر نہیں آرہی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم پہلے امریکا، آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے قرض لے کر کچھ سال گزارتے تھے تو آج ہم سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے قرض لے کر وقت گزار لیں گے تو اس میں پاکستان کی ترقی کہاں نظر آئے گی؟

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ پہلے ہم غیروں کے قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے اور اب مجھے شدید اندیشہ ہے کہ کہیں دوستوں کے قرض میں جکڑے نہ جائیں، لہٰذا ہمیں جتنی چادر ہے اتنے ہیں پاؤں پھیلانے چاہیے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Faisal Amir Awan Dec 29, 2018 02:34pm
کسی کو اس آدمی سے پوچھنا چاہئے کہ وہ اپوزیشن لیڈر تھے اور پھر عوامی اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے جب وہ اقتدار میں تھا تو کیا اس نے کچھ بھی انقلابی کیا؟ لیکن اگر آپ ان کے انٹرویو سنتے ہیں تو وہ بغیر کسی اختتام کے گھنٹے اور گھنٹے تک جا سکتے ہیں

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024