• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

’داخلی صورتحال پر توجہ دیے بغیر خارجہ پالیسی تشکیل نہیں دی جاسکتی‘

شائع December 28, 2018
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سفرا کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو : ڈان نیوز
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سفرا کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو : ڈان نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے غیر مستحکم داخلی صورتحال منفی تشخص کی وجہ بنی اور جب تک داخلی صورتحال پر توجہ نہیں دیتے خارجہ پالیسی تشکیل نہیں دی جاسکتی۔

اسلام آباد میں 2 روزہ سفرا کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک موثر خارجہ پالیسی اس وقت تک نہیں بن سکتی جب تک آپ داخلی معاملات کو مدنظر نہیں رکھتے، اگر داخلی صورتحال صحیح نہیں ہے تو جتنے بھی قابل سفارتکار کیوں نہ ہوں وہ توقعات کے مطابق کام نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ داخلی اور خارجی پالیسی کے اس تعلق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر ٹی وی اسکرین پر افراتفری دکھائی دے، اگر بین الاقوامی میڈیا پر پاکستان کی میگا کرپشن کی داستانیں فرنٹ پیج کی زینت بنے، وہاں ناقص حکمرانی کے تذکرے ہوں تو چاہے کتنے ہی قابل سفارت کار ہوں پاکستان کا عالمی تصور بحال نہیں ہو پائے گا۔

مزید پڑھیں : حکومت کا منی لانڈرنگ روکنے کیلئے قوانین میں ترمیم کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ اس لیے ضرروی ہے کہ ہم بیرونی اور اندرونی معاملات کی مطابقت کو سمجھیں اور اگر ایسا نہیں ہوسکا تو ٹریول ایڈوائزریز مسلط ہوتی رہیں گی اور ممالک اپنے عوام کو یہاں سفر کرنے سے روکیں گے، جس سے غیرملکی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری گرتی چلی آئی ہے کیونکہ اعتماد کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جب حکومت سنبھالی تو پچھلے مالی سال میں تاریخی خسارہ ملا اور صورتحال یہ ہے کہ ملک اتنا مقروض ہے کہ قرضہ اتارنے کے لیے بھی قرضے کی ضرورت ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم 16 مرتبہ 'آئی ایم ایف' کے دروازے پر دستک دے چکے ہیں اور اب 17ویں مرتبہ کی تیاری ہے اور جب ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں تو وہ نئی شرائط رکھتے ہیں، جو پاکستان کا عام شہری ان حالات میں برداشت نہیں کر پائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم جو ملک کا سب سے بڑا ترجمان ہوتا ہے وہ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے اور خطے کی صورتحال پر مشاورت کرنے اور پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرنے جاتا ہے، لیکن جب حکومت سنبھالی تو وزیر اعظم کو دوستوں سے مالی تعاون حاصل کرنے کے لیے باہر جانا پڑا اور یہ کوئی خوش آئند نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں : وزیر خارجہ کا 4 ملکی دورہ، روسی ہم منصب سے ملاقات

انہوں نے کہا کہ کانفرنس کا مقصد اقتصادی سفارت کاری پر توجہ مرکوز کرنا ہے، ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ 21ویں صدی ایشیا کی ہے اور صرف ایشیا میں ہر سال 4 سو 76 ارب کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے لیکن اس میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی تجارت میں پاکستان کا حصہ صرف 0.12 فیصد ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا سرمایہ کاری میں، کاروبار کرنے میں آسانی میں پاکستان 75ویں نمبر سے 136ویں نمبر پر جاپہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 193 ممالک میں ٹیکس جی ڈی پی تناسب میں 174ویں نمبر پر ہیں، معاہدات کے معاملے میں ہم 156ویں نمبر پر ہیں اور ہمارا دوست ملک چین چھٹے نمبر پر ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ چین نے پاکستان کے ساتھ 9 اقتصادی زونز قائم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ہمارے پاس ان پر عملدرآمد کی صلاحیت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کے 4 صوبوں میں سے 3 میں خصوصی اقتصادی زونز پر عملدرآمد کرنے کی صلاحیت نہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین نے بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد سے 42 کے قریب دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے، لیکن صرف 8 کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بیرون ملک سرمایہ کار آتے ہیں تو انہیں 26 ایجنسیز کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے، جبکہ مہذب ممالک میں سرمایہ کاروں کو 5 سے 6 ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں : ماضی میں دوسروں پر انحصار کی پالیسی نے نقصان پہنچایا، وزیراعظم

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہی معاملات کی وجہ سے اس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور اس سلسلے میں حکمت عملی مرتب کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ کس طرح پاکستان کو معاشی دلدل اور آئی ایم ایف سے آزادی حاصل کرائیں۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے فیصلہ کیا ہے کہ وزارت خارجہ، تجارت اور خزانہ اور سرمایہ کاری بورڈ کو مل کر ایک مشترکہ کوشش کرنی ہوگی کہ ہم بہتری کی طرف کیسے جائیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری، تجارت اور سیاحت کے فروغ کے لیے ہمیں نئے انداز سے سوچنا ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ اس 2 روزہ کانفرنس میں مختلف ممالک میں تعینات 11 پاکستانی سفارت کاروں نے شرکت کی، چین، جاپان، کوریا، انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی اور متحدہ عرب امارات میں تعینات کیے گئے سفیروں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں برطانیہ اور امریکا میں تعینات کیے گئے سفیروں نے سرمایہ کاری اور تجارت کے لیے موجودہ مواقع کا ایک خلاصہ پیش کیا، اس دوران اسٹیٹ بینک کے 2 سابق گورنر عشرت العباد اور شمشاد اختر کے تجربے سے بھی مستفید ہوئے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کانفرنس میں نجی سیکٹر سے وابستہ تجربہ کار افراد نے بھی اپنے تجربات پیش کیے۔

دوسروں پر انحصار کی پالیسی کو ترک کرنا پڑے گا، وزیراعظم

بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے سفیروں کو بیرون ملک منی لانڈرنگ کے حوالے سے کام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی میں دوسروں پر انحصار کی پالیسی سے بہت نقصان پہنچا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ‘قومی وقار کی بات پر مذاق اڑایا جاتا ہے، قوموں کی غیرت بڑی اہمیت رکھتی ہے’۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دوسروں پر انحصار پر بنائی گئی پالیسی سے نقصان پہنچا، سیٹو اور سینٹو اور دیگر امداد پر انحصار کیا گیا اور پالیسی بناتے ہوئے وقت اس بات کو مدنظر رکھا گیا کہ کس طرح امداد حاصل کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسروں پر انحصار کی پالیسی سے بہت نقصان ہوا اس لیے دوسروں پر انحصار کی پالیسی کو ترک کرنا پڑے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024