سال 2018 بھارت کے لیے کیسا رہا؟
الیکشن سے پہلے کا سال ہونے کی وجہ سے 2018ء کی بھارت کے لیے خاص اہمیت ہے۔ ترقی کے دعوؤں، کروڑوں نوکریوں اور میک ان انڈیا کے اعلانات کے ساتھ آنے والی بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کو اسی سال اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کرنی تھی تاکہ 2019ء کے آغاز میں ہونے والے عام انتخابات میں ہندوستانی عوام کارکردگی کی بنیاد پر انہیں اگلی مدت کے لیے اقتدار میں رکھنے یا الگ کرنے کا فیصلہ کرسکیں۔
نام تبدیل کرنے کی مہم
سال 2018ء بھارت میں شہروں، قصبات اور علاقوں کے ناموں کی تبدیلی کے حوالے سے یادگار رہے گا۔ ناموں کی تبدیلی اگرچہ 1947ء سے ہی جاری ہے اور کئی بڑے شہروں کے نام یا تلفظ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ جیسے بمبئی سے ممبئی، کلکتہ سے کولکتہ، مدراس سے چنائی وغیرہ۔ لیکن بی جے پی کی موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری سال میں مسلمانوں کے ناموں سے منسوب شہروں اور علاقوں کو بطور خاص نشانہ بنایا۔
اس مہم کا باقاعدہ آغاز جولائی 2018ء میں اتر پردیش سے ہوا، جہاں بی جے پی کی ہی حکومت نے
- مشہور ریلوے اسٹیشن ’مغل سرائے‘ کا نام تبدیل کرکے اسے ہندو قوم پرستی کے نظریہ ساز رہنما ’دین دیال اپادھیائے‘ کے نام سے منسوب کردیا۔
- اترپردیش کے ہی شہر ’الہٰ آباد‘ کا نام ’پریاگ راج‘ رکھ دیا گیا۔
- ’فیض آباد‘ ضلع کا نام ’ایودھیہ‘ رکھا گیا۔
- ریاست گجرات میں ’احمد آباد‘ کا نام بدل کر ’کرناوتی‘ رکھنے،
- مہاراشٹر میں ’اورنگ آباد‘ کو ’شمبھا جی نگر‘ اور
- ’عثمان آباد‘ کو ’دھارا شیو‘ کیا جانا چاہیے کی مہم بھی شروع ہے۔
- ہماچل پردیش میں ’شملہ‘ کا نام ’شیاملہ‘ کرنے کی تجویز بھی آچکی ہے۔
- اسی طرح ’پٹنہ‘ کا نام بدل کر ’پاٹلی پترا‘ اور
- ’آگرہ‘ کا نام ’اگروال‘ رکھنے کا مطالبہ سامنے آچکا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے ہندوؤں کے ایک طبقے میں اپنی تہذیب و ثقافت کے نام پر ایک غیر ضروری اور خطرناک احساس پیدا کیا جا رہا ہے تاکہ 2019ء کے عام انتخابات میں اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور ہندو غیرت و خود داری کے نام پر ووٹ حاصل کیے جاسکیں۔
طلاق کا معاملہ
بھارت میں ایک ہی وقت میں 3 طلاق دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل ’لوک سبھا‘ سے منظور کیا گیا جس کے خلاف کانگریس سمیت اہم اپوزیشن جماعتوں نے واک آؤٹ کیا۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی کابينہ نے ايک خصوصی حکم نامے کی منظوری دی جس کے تحت ایک ساتھ 3 طلاق دينے کو قابلِ سزا جرم قرار دے دیا گیا۔ سپريم کورٹ نے اس عمل کو گزشتہ برس غير قانونی قرار دے ديا تھا تاہم وزيرِاعظم نريندر مودی کی حکومت چاہتی تھی کہ ایک ساتھ 3 مرتبہ طلاق دينے کو ايک ايسا جرم قرار ديا جائے، جسے سر انجام دينے والوں کو 3 سال تک کی سزا سنائی جاسکے اور گرفتار ہونے والوں کی ضمانت پر بھی رہائی نہیں ہوسکے۔
یاد رہے کہ بھارت میں مجموعی طور پر قریب 17 کروڑ مسلمان آباد ہیں، اور ان کے لیے مسلم پرسنل لا یا اسلامی خاندانی قانون لاگو ہوتا تھا، جسے سن 1937ء میں باقاعدہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔
جنسی زیادتی
بین الاقوامی خبر رساں ادارے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن (ٹی آر ایف) نے 2018ء میں خواتین کے لیے خطرناک ترین ثابت ہونے والے ممالک کی فہرست میں بھارت کو اول مقام دیا۔ ٹی آر ایف کے سروے کے مطابق دنیا بھر میں بھارت کے اندر خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، جنسی ہراسانی اور گھریلو تشدد کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں۔
رافیل طیارہ کیس
2018ء کا نصف آخر بھارت میں فرانس سے طیاروں کی خریداری میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے چرچوں سے گونجتا رہا۔ فرانس کے سابق صدر فرینکوئس ہولاندے نے اپنے ایک بیان میں انکشاف کیا تھا کہ نریندر مودی کی حکومت نے طیارے بنانے والی فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ بھارت میں لوکل پارٹنر کے طور پر بھارتی ارب پتی کاروباری شخصیت انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس سے معاہدہ کرے۔ ڈسالٹ ایوی ایشن سے 36 رافیل طیاروں کی خریداری کی مجموعی رقم 8.7 بلین ڈالر ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے الزام عائد کیا کہ مودی حکومت نے طیاروں کی خریداری میں شفافیت اختیار نہیں کی اور اس سودے میں اضافی رقم ادا کی۔ حکومتی اسلحہ ساز کمپنیوں کی موجودگی میں انیل امبانی کی کمپنی ریلائنس کو اس ڈیل میں شامل کرنے کا مقصد ایک شخص کو فائدہ دینا اور کمیشن وصول کرنا ہے۔ اسی لیے بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں مودی حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ صورتحال کچھ ایسی ہوچکی ہے کہ طیاروں کی ڈیل کا معاملہ 2019ء کے الیکشن میں بھی ایک بڑا ایشو بن سکتا ہے۔
معاملہ بابری مسجد اور رام مندر کا
2018ء میں رام مندر کا معاملہ ایک بار پھر نمایاں ہوکر سامنے آیا۔ ایک جانب بھارتی سپریم کورٹ اس کیس کی سماعت کر رہی ہے تو دوسری جانب ہندو انتہا پسند تنظیموں نے بابری مسجد کے انہدام کے روز ایک بار بھر ایودھیا میں بڑا اجتماع کرکے عین بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا اعلان کیا۔ جبکہ ادھر نریندر مودی حکومت کے کئی عہدے دار رام مندر کے حوالے سے قانون سازی کا اعلان کرچکے ہیں۔
2018ء میں بھی بھارت میں گاو رکھشا یعنی گائے کے تحفظ کے حوالے سے ہونے والے جرائم میں کمی نہیں آسکی۔ گائے کے بیوپاریوں کو سڑکوں پر مارے پیٹے جانے کے واقعات تسلسل سے پیش آتے رہے۔ سال کے آخری ایام میں بلند شہر میں گائے کے حوالے ہونے والے ایک تصادم میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہندو پولیس انسپکٹر کی ہلاکت نے اس ایشو کو اور بھی نمایاں کیا۔
کشمیر اور بھارتی مظالم
2018ء وادی کشمیر میں گزشتہ دہائی کا سب سے خون ریز سال ثابت ہوا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال اب تک کم از کم 415 افراد مارے گئے۔ عسکریت کی لہر میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا اور پہلی مرتبہ عسکریت میں انتہائی تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کی شمولیت نے دنیا کو چونکا دیا۔ پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر منان بشیر وانی کی عسکریت میں شمولیت اور پھر بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپ میں موت نے کشمیر میں جاری عسکریت کو ایک نئے انداز میں دیکھنے پر مجبور کیا۔
2018ء کے دوران کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے پیلٹ گن کی تباہ کاریاں بھی جاری رہیں۔ پیلٹ وکٹمز ویلفئیر ٹرسٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک پیلٹ کے استعمال سے 4 ہزار سے زیادہ کشمیری بصارت سے محروم ہوچکے ہیں۔
2018ء میں ایک نئی تاریخ یہ رقم ہوئی کہ صرف 19 ماہ کی بچی حبا جان کی آنکھیں پیلٹ گن کی وجہ سے بینائی سے محروم ہوئیں۔ اس واقعے نے دنیا بھر کے حساس دلوں کو ہلا ڈالا۔ 2018ء میں ہی پہلی بار اقوام متحدہ نے کشمیر میں انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے عام کشمیریوں کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا فوکس جولائی 2016ء سے اپریل 2018ء کے دوران جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔
رپورٹ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں اس دوران 145 عام شہری مارے گئے۔ جون 2018ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ کے مرتبین میں سے ایک کشمیری صحافی اور رائزنگ اسٹار نامی اخبار کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کو سری نگر میں ان کے دفتر کے باہر فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ بھارتی حکومت نے شجاعت بخاری کے قتل کو عسکریت پسندوں کی کارروائی قرار دیا جبکہ عسکریت پسندوں نے اسے بھارتی انٹیلی جنس ایجنٹوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
کشمیر کی حکومت کا خاتمہ
2018ء میں ہی ریاست جموں کشمیر میں قائم بھارتیہ جتنا پارٹی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی مخلوط حکومت اپنے اختتام کو پہنچی۔ 3 سال 3 ماہ تک چلنے والی محبوبہ مفتی کی حکومت بی جے پی کی جانب سے حمایت واپس لینے پر ختم ہوگئی۔ کئی ماہ تک اسمبلی کو معطل رکھ کر گورنر راج نافذ رہا، لیکن پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کی جانب سے مخلوط حکومت بنانے کے اعلان پر گورنر نے ریاستی اسمبلی کو برطرف کردیا۔
گورنر راج کے 6 ماہ پورے ہونے پر ریاست میں صدر راج نافذ کردیا گیا۔ ریاست جموں کشمیر کے خصوصی اسٹیٹس کی ضمانت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور ریاست کے افراد کو شناخت دینے والے آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کی کوشش کی گئی۔ اسٹیٹ سبجیکٹ کے نام سے معروف آرٹیکل 35 اے کی حیثیت کے بارے میں بھارتی سپریم کورٹ کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ اس کے خلاف کشمیر میں زبردست احتجاج کیا گیا۔ پہلی بار ریاست کی تمام اکائیوں بشمول جموں اور لداخ میں بھی احتجاج ہوا۔
2018ء میں ہی ریاست جموں کشمیر میں 13 سال کے وقفے کے بعد پنچائتی انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا۔ جن میں عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ کئی اضلاع میں ووٹنگ کی شرح 2 فیصد یا اس سے بھی کم رہی۔ 2018ء میں ہی ناروے کے سابق وزیرِاعظم اور اوسلو سینٹر برائے امن و انسانی حقوق کے سربراہ کیل مینگے بونڈوک نے بھارت کے زیرِ انتظام وادی کا دورہ کیا اور علیحدگی پسند کشمیری قیادت سے بھی ملاقات کی۔
پاک-بھارت تعلقات
2018ء کے دوران بھارت اور پاکستان کے تعلقات بہتر نہیں ہوسکے۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دونوں ممالک کے نمائندوں نے اپنی تقریر کا بڑا حصہ ایک دوسرے پر گرجنے برسنے میں صرف کیا۔ اس سال پاکستان نے 514 بھارتی شہریوں کو رہا کیا، جن میں 508 ماہی گیر اور 6 سویلین شامل تھے۔ آخری رہائی جاسوسی اور غیر قانونی بارڈر پار کرنے کے الزام میں قید بھارتی شہری حامد نہال انصاری کی تھی۔ جبکہ بھارت نے 81 پاکستانی شہریوں کو رہا کیا جن میں 60 ماہی گیر اور21 سویلین شامل تھے۔
اسی سال پاکستان کی جانب سے کرتارپور کوریڈور کھولنے کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کیا جبکہ بھارت نے ممبئی میں واقع جناح ہاؤس کو اپنی تحویل میں لے کر وہاں سرکاری تقریبات کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے اس اقدام پر واضح بیان دیا ہے کہ بھارت کو جناح ہاؤس میں قبضے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس پر پاکستان کا دعوٰی برقرار ہے۔
فسادات
2 جنوری کو مہاراشٹرا میں برطانوی فوجیوں اور مراٹھا ہیرو باجی راؤ دوئم کے درمیان ہونے والے معرکے کی 200 سالہ تقریبات میں کورے گاؤں کے دلتوں اور مراٹھیوں کے درمیان تصادم ہوگیا۔ شہر بھر میں فسادات پھیل جانے کے بعد ممبئی کے اسکول اور کالج بند کردیے گئے۔ جلد ہی فسادات کی آگ پورے مہاراشٹرا میں پھیل گئی۔ فسادی املاک کو نقصان پہنچاتے رہے جس سے بچنے کے لیے ریاست کے کئی علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی اور فوج اور پیراملٹری فورسز کو طلب کرلیا گیا۔ اس تصادم کے نتیجے میں کئی دلت ہلاک ہوئے۔ بی جے پی حکومت کے دوران نچلی ذات کے ہندوؤں خصوصا دلتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اہم شخصیات کی موت
2018 میں بھارت کی کئی ایک نمایاں شخصیات کی موت واقع ہوئی۔ ان میں اداکارہ سری دیوی، بھارتی فضائیہ کے واحد مسلمان سربراہ ادریس حسن لطیف، صحافی و کالم نگار کلدیپ نائیر اور سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی شامل ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں