• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بھارت: ایک ساتھ تین طلاق پر سزا کا بل لوک سبھا سے منظور

شائع December 27, 2018 اپ ڈیٹ December 28, 2018
بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال ایک ساتھ تین طلاق کو غیرآئینی قرار دیا تھا— فوٹو: اے ایف پی
بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال ایک ساتھ تین طلاق کو غیرآئینی قرار دیا تھا— فوٹو: اے ایف پی

بھارت میں ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل ’لوک سبھا‘ سے منظور لیا گیا جس کے خلاف کانگریس سمیت اہم اپوزیشن جماعتوں نے واک آؤٹ کیا۔

گزشتہ سال بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں مسلمان مردوں کی جانب سے ایک ہی وقت میں 3 طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: بھارت: ایک ہی وقت میں تین طلاق کا عمل غیر آئینی قرار

بعد ازاں عدالتی فیصلے کو آئین کا حصہ بنانے کے لیے اقدامات شروع کیے گئے تھے اور اس سلسلے میں قانون سازی کرتے ہوئے پارلیمان میں بل پیش کرنے کی تیاریاں شروع کی گئی تھیں۔

جمعرات کو حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ایوان زیریں میں ایک ساتھ تین طلاق کو قابل سزا جرم قرار دینے کا بل پیش کیا، جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔

بل کے تحت ایک ساتھ تین طلاق دینے والے شوہر کو 3 سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے، بل کے حق میں 245 ووٹ پڑے جبکہ 11 ووٹ بل کے خلاف آئے۔

البتہ کانگریس سمیت اکثر اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور موقف اختیار کیا کہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں ایک ساتھ تین طلاق پر یہ سزا دینے کا قانون نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: بیک وقت تین طلاق دینے پر پہلی گرفتاری

اس کے ساتھ ساتھ اپوزیشن نے یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ بل میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ اگر شوہر کو تین سال تک جیل ہو گی تو اس دوران بچوں کے نان نفقے سمیت دیگر اخراجات کا خرچ کون برداشت کرے گا؟

کانگریس کے رہنما ملک ارجن کھارگے نے اس مسئلے پر اتفاق رائے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال بھی اس سلسلے میں ایک بل لوک سبھا سے منظور کیا گیا تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں کے شدید احتجاج کے بعد اس بل کو ترمیم کے بعد دوبارہ ایوان زیریں میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن ایک مرتبہ پھر حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے واک آؤٹ مودی حکومت کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے کیونکہ ایوان بالا یعنی راجیا سبھا میں حکمراں جماعت کو اکثریت حاصل نہیں اور اس بل کو قانون کی شکل دینے کے لیے انہیں اپوزیشن کی مدد درکار ہو گی۔

بل کو خواتین کے حقوق کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے، جس میں خواتین کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ وہ طلاق ملنے کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کراسکیں گی۔

بل میں واضح کردیا گیا ہے کہ مرد کی جانب سے زبانی، تحریری یا سوشل میڈیا کے ذریعے بیک وقت تین بار دی گئی طلاق کو جرم تسلیم کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ مسلم قوانین کے مطابق خاوند اپنی اہلیہ سے رشتہ ختم کرنے کے لیے 3 مرتبہ طلاق کے الفاظ کہتا ہے تاہم اس حوالے سے مسلم اسکالرز میں متضاد رائے پائی جاتی ہے، کچھ کا ماننا ہے کہ مرد کی جانب سے ایک ہی مرتبہ طلاق کے الفاظ تین مرتبہ کہنے سے یہ رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔

مزید پڑھیں: ہندوستان:مسلم خواتین کی 3بار طلاق کےخلاف جدوجہد

تاہم دیگر کا ماننا ہے کہ اسلامی شریعت کی روح سے 3 طلاقوں کے درمیان مخصوص عرصہ درکار ہے۔

بھارت میں رہنے والی اقلیتوں میں 15 کروڑ 50 لاکھ مسلمان بھی شامل ہیں جو اپنے ذاتی قوانین کے مطابق ان معاملات میں فیصلوں کے لیے آزاد ہیں، جس کا مقصد ہندو اکثریت والے ملک بھارت میں ان کی مذہبی آزادی تسلیم کرنا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024