راؤ انوار کا بیرون ملک جانے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع
اسلام آباد: نقیب اللہ محسود سمیت 400 افراد کے مبینہ طور پر قتل کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنے والے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام خارج کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔
عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں راؤ انوار نے موقف اپنایا ہے کہ مقدمے کی سماعت جاری ہے اور وہ عدالت میں پیش ہورہے ہیں جبکہ ان پر درج مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ضمانت کے باوجود ان کا نام ای سی ایل میں شامل ہے، جس کے باعث وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔
مزید پڑھیں: مقتول نقیب اللہ کے والد کا جج پر عدم اعتماد، مقدمہ منتقل کرنے کی درخواست
راؤ انوار نے عدالت سے کہا ہے کہ وہ عمرے کی ادائیگی کے لیے جانا چاہتے ہیں، لہٰذا ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔
عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں وفاقی اور سندھ حکومت کو فریق بنایا گیا اور کہا گیا کہ 23 جنوری 2018 کے حکم نامے کے بعد نام ای سی ایل میں ڈالا گیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ سے قانون کے مطابق ضمانت پر رہائی حاصل کی ہے، تاہم عدالت کے حکم پر میرا پاسپورٹ ضبط کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں سوال کیا گیا کہ کیا قانونی کارروائی جاری رہنے کے دوران ایک شہری ہونے کے ناطے میری آمدورفت کو محدود کیا جاسکتا ہے ؟
راؤ انوار نے موقف اپنایا کہ ان کے بچے ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں وہ پاکستان نہیں آسکتے، انہیں اوران کے اہل خانہ کو جان کا خطرہ ہے اس لیے پاکستان میں بھی وہ کہیں آ جا نہیں سکتے۔
انہوں نے کہا کہ بحیثیت والد بچوں کے حقوق ادا کرنے ہیں، اس لیے ملک سے باہر جانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ وہ ٹرائل کورٹ میں ہر پیشی پر پیش ہوتے ہیں اور لیکن مستقبل قریب میں اس کا فیصلہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
راؤ انوار نے کہا کہ وہ بیان حلفی دیتے ہیں کہ ملک سے باہر ہونے کے باوجود ٹرائل کورٹ میں پیش ہوتے رہیں گے اور بیرون ملک جانے سے ٹرائل میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔
درخواست میں انہوں نے موقف اپنایا کہ بینظیر بھٹو قتل کیس، سانحہ 12 مئی اور ایان علی کیس کے ملزمان کے نام ای سی ایل میں نہیں ڈالے گئے، لہٰذا ان کا نام بھی اس فہرست سے نکالنے کے احکامات صادر کیے جائیں۔
اگرراؤ انوار کی بات کی جائے تو وہ ایس ایس پی ملیر تھے اور انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔
تاہم ان پر مختلف افراد کے ماورائے عدالت قتل کا الزام لگتا رہتا تھا لیکن انہیں عدالتی معاملات اور ای سی ایل میں نام ڈالے جانے کا سامنا جنوری 2018 کے ابتدا کے بعد سے کرنا پڑا۔
13 جنوری 2018 کو نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کے قتل کا معاملہ سامنے آیا، جنہیں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کا معامہ سوشل میڈیا پر سامنے آیا، جس کے بعد راؤ انوار کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہوا۔
ابتدائی طور پر پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔
اس وقت ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔
تاہم نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔
سوشل میڈیا پر اس مہم کے سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا جبکہ ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار کیلئے جیل میں بی کلاس منظور
جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں تھی جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا گیا تھا، تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے، جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
بعد ازاں یہ معاملہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلا تھا، جہاں مختلف سماعتوں میں راؤ انوار کو پیش کیا گیا تھا لیکن ان پیشیوں کے دوران راؤ انوار کو کبھی ہتھکڑی نہیں لگائی گئی اور نہ ہی انہیں خصوصی بیلٹ پہنائی گئی۔
عدالت میں زیر سماعت اس معاملے میں راؤ انوار کی جانب سے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی، جسے منظور کرلیا گیا تھا۔
تاہم ان کا نام ای سی ایل میں شامل تھا، جس کے باعث وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔