• KHI: Asr 4:14pm Maghrib 5:50pm
  • LHR: Asr 3:28pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:14pm Maghrib 5:50pm
  • LHR: Asr 3:28pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

نواز شریف اڈیالہ سے کوٹ لکھپت جیل منتقل

شائع December 25, 2018

احتساب عدات سے العزیزیہ ریفرنس میں سزا پانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اڈیالہ جیل راولپنڈی سے کوٹ لکھپت لاہور جیل منتقل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ نواز شریف کو عدالتی فیصلہ آنے کے بعد کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا تھا جس کے بعد انہیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔

سابق وزیراعظم کو پہلے اڈیالہ جیل سے سخت سیکیورٹی میں ایئرپورٹ منتقل کیا گیا، جہاں سے انہیں خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور لے جایا گیا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم بھی سابق وزیر اعظم کے ہمراہ موجود تھی، جس نے لاہور پہنچنے کے بعد نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا۔

نواز شریف کی منتقلی کے موقع پر کوٹ لکھپت جیل کے باہر لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جو اپنے قائد نواز شریف سے اظہار یکجہتی کرنے کے لیے پہنچے تھے۔

نواز شریف سے اظہار یکجہتی کیلئے کارکنوں کی بڑی تعداد ایئرپورٹ پر موجود تھی—فوٹو: ڈان نیوز
نواز شریف سے اظہار یکجہتی کیلئے کارکنوں کی بڑی تعداد ایئرپورٹ پر موجود تھی—فوٹو: ڈان نیوز

ادھر محکمہ داخلہ پنجاب نے نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل میں ’بہتر کلاس‘ یا ’بی کلاس‘ کی بیرک میں منتقل کرنے کی اجازت دے دی۔

اس کلاس میں قیدیوں کو ایک گدہ، مطالعے کے لیے میز اور کرسی جبکہ ایک ٹی وی اور اخبار بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نواز شریف کی آج 69 ویں سالگرہ ہے اور مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سیکریٹریٹ نے قائداعظم کی سالگرہ اور کرسمس کی تقریبات کے ساتھ نواز شریف کی سالگرہ منانے کا منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید، فلیگ شپ ریفرنس میں بری

اس سے قبل یہ توقع کی جارہی تھی کہ شام کے اوقات میں نواز شریف کو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی فلائٹ (پی کے-615) سے لاہور منتقل کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد وکیل نے نواز شریف کو اڈیالہ کے بجائے لاہور جیل منتقل کرنے کی درخواست کی تھی۔

نواز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور ان کے ذاتی معالج اور خاندان کے زیادہ تر افراد لاہور میں ہی رہتے ہیں۔

اگرچہ استغاثہ کی جانب سے اس درخواست کی مخالفت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد کی عدالتوں سے سزا پانے والوں کے لیے اڈیالہ جیل مختص کیا گیا ہے، تاہم عدالت کے جج نے نواز شریف کی درخواست منظور کرلی تھی۔

احتساب عدالت کے جج ریمارکس دیے تھے کہ انہوں نے سزا اور جیل بھیجنے کا فیصلہ دیا ہے اور وہ اپنے فیصلے پر فیصلہ کرسکتے ہیں۔

احتساب عدالت نے اڈیالہ کے بجائے کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کی درخواست منظور کی تھی لیکن کہا تھا کہ فی الحال نواز شریف کو اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے گا۔

بعد ازاں اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے بعد جیل ڈاکٹرز نے ان کا طبی معائنہ کیا تھا، جس میں وہ جسمانی طور پر تندرست تھے۔

علاوہ ازیں ذرائع نے بتایا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد کو ’بہتر کلاس‘ کی بیرک میں منتقل کیا گیا تھا، جو اتوار کو ہی بنائی گئی تھی۔

احتساب عدالت کا فیصلہ

خیال رہے کہ 24 دسمبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز پر 19 دسمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔

نواز شریف پر العزیزیہ ریفرنس میں ڈیڑھ ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر (تقریباً ساڑھے 3 ارب پاکستانی روپے) یعنی لگ بھگ 5 ارب روپے سے زائد جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

احتساب عدالت نے 131 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ نواز شریف ذرائع آمدن بتانے اور نیب کی طرف سے نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 اے فائیو کے تحت لگائے گئے الزام کو غلط ثابت کرنے میں ناکام رہے، جبکہ پراسیکیوشن نے ان کے خلاف کرپشن کا الزام ثابت کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا

عدالت نے نواز شریف کو 10 سال کے لیے عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل بھی قرار دیا تھا جبکہ حسن اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ احتساب عدالت نے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت اثاثوں کی ضبطگی کے لیے سعودی عرب سے رابطہ کرے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کے خلاف ثبوت نہیں لہٰذا انہیں بری کیا جاتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024