اسرائیل میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت نے ملک میں قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کی منظوری دے دی جو آئندہ سال اپریل میں ہوں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ حکومتی اتحاد نے اتفاق رائے سے قبل از وقت انتخاب کا فیصلہ کیا۔
لیکوک پارٹی کے رہنماؤں کے اجلاس میں انہوں نے وزیر اعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے حاصل ہونے والی کامیابیوں سے آگاہ کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ ان کا موجودہ مذہبی قومی اتحاد نئی حکومت کا حصہ بھی ہوگا۔
انہوں نے پارٹی اراکین کی تالیوں پر کہا کہ ’ہم اسرائیلی ریاست کی قیادت کے لیے ووٹرز سے شفاف مینڈیٹ کا مطالبہ کرے گے‘۔
اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) میں موجودہ حکومت تحلیل کرنے کے لیے 26 دسمبر کو رائے شماری کروائے جانے کا امکان ہے، جس کے بعد 3 ماہ کی انتخابی مہم کے بعد 9 اپریل کو انتخابات منعقد ہوں گے۔
مزید پڑھیں : شام سے امریکی فوجیوں کا انخلا، ’ایران کےخلاف پالیسی تبدیل نہیں ہوگی‘
آئندہ انتخابات میں بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزامات نیتن یاہو کے لیے مشکل کھڑی کرسکتے ہیں۔
بنجمن نیتن یاہو کا حکومتی اتحاد کئی ماہ سے اندرونی اختلافات کا شکار تھا، گزشتہ ماہ وزیر دفاع ایوگ ڈور لیبرمین حماس کی جانب سے راکٹ حملوں پر حکومت کے کمزور ردعمل کی وجہ سے مستعفی ہوگئے تھے۔
لیکن حالیہ دنوں میں الٹرا آرتھو ڈوکس یہودی مردوں کو لازمی فوجی بھرتی سے مستثنیٰ قرار دینے کے بل پر حکومتی اتحاد کو بحران کا سامنا ہے۔
اگر نیتن یاہو دوبارہ انتخابات جیت جاتے ہیں تو وہ اسرائیل پر سب سے زیادہ عرصے کے لیے حکومت کرنے والے رہنما ہوں گے اور امریکی صدر کے ساتھ ان کا اتحاد مزید مضبوط ہوگا۔
نیتن یاہو کی دوسری مدت سے انہیں قومیت پسندی کے ایجنڈے کو فروغ دینے اور ایران کے جوہری ہتھیاروں کے خلاف دنیا بھر میں مہم جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔
اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان پر عائد کیے گئے بدعنوانی کے الزامات ہیں، پولیس نے انہیں رشوت اور اختیارات سے تجاوز کے 3 مختلف مقدمات میں نامزد کیا ہے۔
اسرائیل کو ایک عرصے سے اٹارنی جنرل کے فیصلے کا بے چینی سے انتظار ہے جبکہ اپوزیشن اراکین کی جانب سے بھی قانونی وجوہات کے باعث نیتن یاہو سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
وزارت انصاف نے نیتن یاہو پر بدعنوانی کے الزامات کے حوالے سے مشاورت جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’سیاسی واقعات پر انحصار نہیں کرتے‘۔
یہ بھی پڑھیں : اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے فلسطینی نوجوان جاں بحق
دوسری جانب اسرائیل کے وزیر اعظم خود پر عائد کیے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹائے جانے کی کوشش کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیلی قانون کے مطابق انتخابات نومبر 2019 میں ہونے تھے لیکن وزیر دفاع کے مستعفی ہونے کی وجہ سے قانون سازی میں مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ 120 ارکان پر مشتمل اسرائیلی پارلیمنٹ میں حکومتی اتحاد کو صرف ایک رکن سے برتری حاصل تھی اور اس کے ارکان کی تعداد 61 تھی۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی تاریخ میں آخری مرتبہ 1988 میں حکومت نے مدت پوری کی تھی جس کے بعد سے حکومتی اتحاد کے بحران اور اقتصادی اقدامات کے تحت قبل از وقت انتخابات کروا لیے جاتے ہیں۔
تاہم گزشتہ ماہ ہی بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ سیکیورٹی حالات کی وجہ سے قبل از وقت انتخابات ٹھیک نہیں۔