یونیسیف کا پنجاب میں بچوں کے استحصال کے بڑھتے واقعات پر اظہارِ تشویش
لاہور: یونیسیف پنجاب کے فیلڈ چیف آفیسر عبداللہ محمد یوسف نے کہا کہ چائلڈ پروٹیکشن کے حوالے سے رپورٹس کے مطا بق حالیہ کچھ سالوں میں پنجاب میں بچوں کے استحصال میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ان کیسز میں زیادہ تر اغوا، بچوں کی گمشدگی، جسمانی و جنسی تشدد اور کم عمری میں شادیاں شامل ہیں جن میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
خیال رہے کہ یونیسیف، سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ، نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس اور چائلڈ ایڈوکیسی نیٹ ورک کے زیر اہتمام بچوں کے تحفظ کے حوالے سےا یک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جنوری تا جون 2018: یومیہ 12 سے زائد بچوں کے جنسی استحصال کا انکشاف
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عبداللہ محمد یوسف نے پنجاب حکومت کی جانب سے متعارف کردہ پنجاب ڈیسٹیٹیوٹ اینڈ نیگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ(پی ڈی این سی اے) برائے سال 2004 کو سراہا لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون بچوں سے متعلق تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے تسلی بخش نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتِ پنجاب کو چاہیے کہ بچوں کے ہر طرح کے استحصال کے خاتمے کے لیے ایک جامع قانونی اور انتظامی فریم ورک متعارف کروائے۔
یونیسف عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں کیس مینجمنٹ اینڈ ریفریل سسٹم نافذ کیا جانا چاہیے اور اس سلسلے میں تمام محکموں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کی جائے۔
مزید پڑھیں: پنجاب: بچوں کے جنسی استحصال میں اضافے پر تشویش کی لہر
ان کا مزید کہنا تھا کہ یو این سی آر سی کمیٹی نے 2016 میں پاکستان کے حوالے سے اپنی 5 ویں رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ بچوں کے استحصال کے واقعات سے متعلق رپورٹس کی نگرانی، تحقیقات کرنے کے لیے موثر میکانزم قائم کیا جائے۔
اس کے ساتھ اس قسم کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف بچوں کی حساسیت کو مدِ نظر رکھتے اور متاثرہ بچے کی پرائیویسی یقینی بنانا کر کارروائی کی جائے، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کی سطح پر ان تجاویز پر عملدرآمد سست روی کا شکار ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر برائے محکمہ سماجی بہبود محمد اجمل چیمہ نے کہا کہ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ طبقے میں بہت فرق ہے جس کی وجہ سے اس بارے میں آگاہی پھیلانے میں مشکلات کا شکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ
ان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا کو بچوں کے استحصال کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افتخار مبارک نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم مقررہ عمر 16 سے بڑھا کر 18 کردی جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مزدوروں کی نگرانی نظام مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تا کہ چائلڈ لیبر کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین کے نفاذ موثر بنایا جائے۔
یہ خبر 21 دسمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔