• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 7 جنوری تک توسیع

شائع December 21, 2018
آصف زرداری اور فریال تالپور—فائل فوٹو
آصف زرداری اور فریال تالپور—فائل فوٹو

کراچی: بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی ضمانت میں 7 جنوری 2019 تک توسیع کردی۔

جعلی اکاؤنٹس کیس میں عبوری ضمانت ختم ہونے پر آصف زرداری اور فریال تالپور بینکنگ عدالت پہنچے، جہاں ان کی ضمانت میں توسیع کردی گئی۔

ضمانت ختم ہونے پر آصف زرداری عدالت میں پیش ہوئے—فوٹو: ڈان نیوز
ضمانت ختم ہونے پر آصف زرداری عدالت میں پیش ہوئے—فوٹو: ڈان نیوز

سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی بینکنگ عدالت میں پیشی کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ارکان پارلیمنٹ، ارکان صوبائی اسمبلی اور کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی جبکہ سیکیورٹی انتظامات کے پیش نظر عدالت کے اطراف بیریئرز لگادیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کی ممکنہ گرفتاری، پیپلزپارٹی کی حکمت عملی تیار

آصف زرداری کی بینکنگ عدالت پیشی کے موقع پر سینیٹر رحمٰن ملک، سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی، نثار کھوڑو، امتیاز شیخ، سلمان مراد، وقار مہدی، راشد ربانی، اعجاز جاکھرانی اور دیگر رہنماؤں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر کارکنان نے کمرہ عدالت میں گھسنے کی کوشش کی اور آصف زرداری کے حق میں نعرے بازی کی، جس پر عدالت کے جج نے کمرہ عدالت کی صورتحال پر برہمی کا اظہار کیا۔

دوران سماعت عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ اس کیس میں کیا پوزیشن ہے، جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے اور اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔

بعد ازاں عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 7 جنوری تک توسیع کردی۔

واضح رہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں مرکزی ملزم حسین لوائی، اومنی گروپ کے انور مجید اور عبدالغنی مجید کی پیشی کی عدم پیشی کا معاملہ بھی آیا، ملزمان کے وکیل شوکت حیات نے کہا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، ان کے موکل کو پیش کیا جانا چاہیے۔

جس پر عدالت نے وکیل کو تحریری جواب جمع کرانے کا کہا، جس پر حسین لوائی کے وکیل نے درخواست دائر کی۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ عدالت حسین لوائی کی عدم پیشی پر اڈیالہ جیل انتظامیہ سے جواب طلب کرے، گزشتہ سماعت پر عدالت نے حسین لوائی کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا لیکن جیل انتظامیہ نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا۔

اس سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری کی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر پیپلز پارٹی نے حکمت عملی تیار کی تھی اور تمام ارکان پارلیمنٹ، ارکان صوبائی اسمبلی اور کارکنان کو عدالت پہنچنے کی ہدایت کی تھی جبکہ خواتین ونگ نے بھی تمام عہدیداروں کو عدالت میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

آصف زرداری پر جھوٹے الزامات لگائے گئے، رحمٰن ملک

علاوہ ازیں آصف زرداری کی پیشی کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پی پی پی سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ آصف زرداری پر جھوٹے الزامات لگائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پر مقدمات کوئی نہیں بات نہیں ان کی جماعت کے میڈیا ٹرائل کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں، یہ الزامات ہی ہیں جبکہ معاملہ عدالت میں ہے، لہٰذا کیس پر بات نہیں ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں کبھی نرم اور کبھی سخت ہونا پڑتا ہے، آصف زرداری کی گرفتاری کی افواہیں پھیلانے والوں کو اب معافی مانگنی چاہیے۔

ہمارا میڈیا ٹرائل کیا جارہا، خورشید شاہ

اس موقع پر پی پی پی رہنما خورشید شاہ نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ ہم نے عدلیہ کا اچھا اور برا دور اور اچھے اور برے فیصلے بھی دیکھے ہیں، ہم ہر طرح کے حالات کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں مگر ہمارا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ نہ آپ نے دیکھی ہے نہ میں نے، اس رپورٹ میں کیا ہے ہمیں معلوم نہیں لیکن وقتاً فوقتاً جے آئی ٹی رپورٹ لیک کی جاتی رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا آصف علی زرداری کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال ہمارے لیے نئی نہیں، ہم اپنی ریاست اور جمہوریت کے لیے خیر مانگتے ہیں، ہم نے آمروں کے تجربے کیے، ہم نے فرد واحد کے تجربے کیے اور ہم نے جسٹس منیر سے لے کر چیف جسٹس ثاقب نثار تک سارے ججز کو دیکھا ہے۔

اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری کی نااہلی سے متعلق دائر کیے گئے ریفرنس پر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو لے آئیں۔

خیال رہے کہ 20 دسمبر کو تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو نااہل قرار دینے کے لیے صوبائی الیکشن کمیشن سندھ میں درخواست جمع کرائی تھی۔

اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آصف علی زرداری امریکا میں قائم اپارٹمنٹ کے مالک ہیں، تاہم الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی اثاثوں کی تفیصلات میں اس کا ذکر نہیں، لہٰذا آئین کے مطابق انہیں نااہل قرار دیا جائے۔

پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ایسے الزامات لگتے رہے لیکن ثابت ہوا کہ ایسی چیزیں من گھڑت تھی۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی ٹرائل سے پہلے میڈیا ٹرائل شروع کردیا جاتا ہے، یہ ٹرائل لوگوں کا ذہن بنا دیتا ہے جبکہ میڈیا ٹرائل ہماری بڑی بدقسمتی ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ میڈیا ٹرائل عدالتی ٹرائل کو ٹیک اوور کرلیتا ہے، ایک طرف میڈیا ٹرائل کیا جارہا تو دوسری طرف عدالتی پابندی کے باوجود زیر التوا کیسز پر تبصرہ ہوتا ہے اور پیمرا خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024