’میرا بھائی سعودی عرب کی جیل میں سزائے موت کا منتظر ہے‘
**مندرجہ ذیل کہانی اسماء شفیع نے جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی نتاشہ زئی کو سنائی۔ اسماء کے بھائی علی (نام تبدیل کردیا گیا ہے) کو بیرونِ ملک ملازمت دلوانے کے بہانے ایجنٹوں نے سعودی عرب میں منشیات کی اسمگلنگ پر لگا دیا۔
علی کو سعودی عرب میں سزائے موت سنائی گئی۔ آج تک ان کے خاندان کو ان کی قید اور ان پر موجود مقدمے کے بارے میں کوئی سرکاری نوٹیفیکیشن نہیں ملا ہے اور نہ ہی انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ آیا انہیں کبھی بَری، معاف یا ڈی پورٹ کیا جائے گا یا نہیں، اور نہ ہی یہ کہ ان پر عائد الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لیے انہیں کیا کرنا ہوگا۔**
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3 سال پہلے میں نے اپنے بھائی کو خواب میں دیکھا۔ آخر کار وہ اپنے گھر آگیا تھا۔ نیند میں مجھے ایسا لگا کہ ہمارے سارے دکھ ختم ہوچکے ہیں، ہمارے مسائل حل ہوچکے ہیں اور ہماری مشکلات کا دور ختم ہوچکا ہے۔ ان چند منٹوں کے لیے میں بہت خوش تھی۔
جب سورج طلوع ہوا تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے بھی یہی خواب دیکھا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو دروازے سے اندر آتے ہوئے بھی دیکھا۔
مگر ہم دونوں کو جو خوشی محسوس ہوئی وہ بہت ہی مختصر تھی۔ سورج کی تیز روشنی میں ایک مرتبہ پھر ہمارا سامنا اس تلخ حقیقت سے ہوا کہ میرا بھائی علی سعودی عرب کی ایک جیل میں سزائے موت کا منتظر ہے۔
مشکلات ہمارے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ میرے بھائی اور میرا بچپن بہت ہی مشکلات سے بھرپور تھا۔ میرے والد کی وفات کے بعد ہم ایک رشتے دار کے گھر سے دوسرے کے گھر منتقل ہوتے رہے، اسی آس میں کہ شاید کہیں ہمیں مستقل ٹھکانہ مل جائے۔
میں اپنے بھائی سے کافی چھوٹی تھی اور اگر علی نہ ہوتا تو مجھ پر حالات کا کہیں زیادہ اثر ہونا تھا۔ اس نے مجھے بدترین حالات سے بچائے رکھا۔ میری خواہش ہے کہ میں آج اس کے لیے یہی کرسکوں مگر میں بے یار و مددگار ہوں۔
علی جب سعودی عرب گیا تو وہ تقریباً 22 سال کا تھا۔ اس سے پہلے وہ ایک رائس مل میں کام کرتا رہا تھا۔
میرا بھائی سیدھا سادا شخص تھا۔ اسکول میں اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ لوگ اسے 'بھولا' کہا کرتے تھے۔
جب وہ ان کچھ لوگوں سے ملا جنہوں نے بیرونِ ملک ملازمتیں دلوانے والا کہا، تو میرے بھائی نے بھی ان سے ملازمت کے لیے کہہ دیا۔
اگلے چند ماہ میں ان ایجنٹوں نے علی سے ایک قریبی تعلق بنا لیا اور وہ ان پر اعتماد کر بیٹھا۔ بالآخر انہوں نے اسے بتایا کہ اس کا ٹکٹ تیار ہے اور اسے اسلام آباد جانا ہوگا۔
دارالحکومت سے اسے مردان لے جایا گیا جہاں اسے حیرت انگیز طور پر ایک کمرے میں بند کردیا گیا۔ اگلے چند گھنٹے پریشانی اور خوف کی حالت میں گزرے۔
بالآخر چند مسلح لوگ کمرے میں داخل ہوئے۔ علی کو دھمکایا گیا کہ یا تو وہ ہیروئن سے بھرے کیپسول نگل لے یا موت کے لیے تیار ہوجائے۔ پھر اسے ایک طیارے میں سوار کروا کے جدہ بھیج دیا گیا۔
جیسے ہی طیارہ جدہ کے ہوائی اڈے پر اترا تو میرے بھائی کو گرفتار کرلیا گیا۔
گھر پر ہمیں معلوم تھا کہ کوئی تو مسئلہ ہے۔ علی غائب ہوگیا تھا اور یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
پریشانی کی حالت میں گزرے ان چند مہینوں کے بعد ہمیں ان ساری باتوں کا علم اس وقت ہوا جب اس نے ہمیں جیل سے فون کال کی۔ ہم اس کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔
ہمیں توقع تھی کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانہ اس کی امداد کرے گا مگر اسے سزائے موت سنا دی گئی اور ساتھ ہی ہمیں بھی، کیونکہ ہر صبح ہمیں یہ لگتا ہے کہ کیا معلوم آج کا دن ہی علی کا آخری دن ہو۔
علی کی ایک بیٹی ہے جو اس وقت 5 ماہ کی تھی جب علی اس کے روشن مستقبل کی چاہ میں طیارے میں سوار ہوا۔ اب وہ چوتھی جماعت میں ہے۔
کبھی کبھی وہ اسکول سے واپس روتی ہوئی آتی ہے۔ ہم اسے بتا چکے ہیں کہ علی کیوں واپس نہیں آسکتا، مگر پھر بھی جب وہ دوسرے بچوں کو اپنے ابووں کے ساتھ گھر جاتے ہوئے دیکھتی ہے تو اپنے والد کی کمی محسوس کرتی ہے۔
چنانچہ اب ہمارا گھر صرف 3 خواتین اور ایک بچی پر مشتمل ہے۔
میری والدہ مفلوج ہیں اور بستر پر رہتی ہیں۔ وہ دن میں 5 مرتبہ نماز پڑھتی ہیں اور اللہ سے وقت واپس لوٹا دینے کی دعا کرتی ہیں۔ جب وہ علی سے فون پر بات کرتی ہیں تو صرف ایک سوال پوچھتی ہیں: ’بیٹا، گھر کب آؤ گے؟‘
ہم علی کی واپسی صرف اپنے خاندان کی تکمیل کے لیے نہیں چاہتے۔ اس وقت صرف میں کماتی ہوں اور ہم لوگ بمشکل اپنے اخراجات پورے کرپاتے ہیں۔ اگر میرا بھائی واپس آجائے تو شاید ہماری قسمت پلٹ جائے۔
جیل سے میرا بھائی مجھے غیر ملکی جیلوں کی خوفناک کہانیاں سناتا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اس کے ساتھی قیدیوں کو حکومتِ پاکستان سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ عدالت میں سب لوگ عربی میں بات کرتے ہیں اور پاکستانیوں کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کہا جارہا ہے اور عدالت میں کیا ہورہا ہے۔
کئی قیدیوں نے لاعلمی میں اعترافی بیانات پر دستخط کیے ہیں۔ جیلیں اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی ہیں اور قیدیوں کو جلد کے امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔
سزائیں اپنی مرضی سے تبدیل کردی جاتی ہیں اور کئی قیدی جو پہلے عمر قید کاٹ رہے تھے، انہیں بغیر کوئی وجہ بتائے سزائے موت پر منتقل کردیا جاتا ہے۔
میرا بھائی مسلسل اسی خوف تلے زندگی گزار رہا ہے کہ وہ کسی بھی روز ہمیں الوداع کہے بغیر رخصت ہوجائے گا۔ ہر دن کے اختتام پر میں بخوشی اپنی آنکھیں بند کرتی ہوں۔ جب میں سوتی ہوں تو میں بے یار و مددگار نہیں رہتی۔ میں اس ظالم نظام، اس لاپرواہ حکومت اور اس بے حس معاشرے کو پیچھے چھوڑ دیتی ہوں۔
میں مالی مشکلات، کمر توڑ اداسی اور مسلسل خوف کی حدود سے باہر نکل جاتی ہوں۔ جب میں سوتی ہوں تو پُرامید ہوجاتی ہوں کیونکہ ان کچھ گھنٹوں میں ایک مرتبہ پھر علی کو دیکھنے کا امکان نظر آتا ہے، چاہے خواب میں ہی کیوں نہ ہو۔
تبصرے (8) بند ہیں