تارکین وطن یا ہجرت کرنے والوں کی زندگی کا مثبت چہرہ
ہم ہر وقت تارکین وطن اور مہاجرین کو درپیش مسائل کی تو بات کرتے ہیں مگر مہاجرین کے بڑھتے وسائل، خوشحالی اور ترقی کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مہاجرین کا ذکر آتے ہی مجبور، بے کس، لاچار اور غریب لوگوں کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی بہت اہم ہے۔
شام میں جب سے جنگ چھڑی ہے، اس وقت سے ایک اندازے کے مطابق 63 لاکھ افراد بشمول بچے اپنی سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور آج وہ دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنی سرزمین کو چھوڑ کر دوسری جگہ رہنے کا تصور جتنا مشکل ہے اس سے کئی گنا زیادہ اس پر عمل کرنا ہے، لیکن جب اپنی ہی جگہ قیامت کا منظر پیش کررہی ہو، تو کسی محفوظ جگہ منتقل ہوجانا ہی بہتر رہتا ہے۔
ہجرت کرنے والوں کے حوالے سے ہم اکثر درد بھری کہانیاں اور ان کی مشکلات کے بارے میں سنتے ہیں، لیکن کئی لوگ ایسے بھی ہیں جن کی زندگی ہجرت کی وجہ سے سنور گئی۔
آئیے ایسی ہی ایک کہانی کو جاننے کے لیے ایک شامی مہاجر عیسی کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔
عیسی کا نام دشمنوں کی فہرست میں شامل ہوچکا تھا۔ شامی حکومت نے اسے دشمن ڈیکلئیر کیا تھا۔ حکومت نے ایسا کیوں کیا عیسی آج تک اس کی وجہ جاننے میں ناکام ہے۔ شہر پر بموں اور راکٹوں سے حملہ ہو رہا تھا۔ عیسی اپنی بیوی رقیہ اور 4 بچوں کے ساتھ بم شیلٹر کے نیچے پناہ لیے ہوئے تھا۔ کھانے پینے کی اشیا کئی گنا مہنگی اور قوت خرید ختم ہوچکی تھے۔ انسان بلیوں اور کتوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہوچکے تھے۔ نوبت گھاس کھانے اور چھپڑ کا پانی پینے تک آ پہنچی تھی۔ وہ ہر دن کو آخری دن اور ہر رات کو آخری رات سمجھ کر جی رہے تھے۔ بچے رات کا کھانا کھا کر سونے جا رہے تھے کہ گھر پر راکٹ حملہ ہوگیا۔ گھر تباہ ہوگیا اور خاندان بھکر گیا۔
لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جانی نقصان نہیں ہوا اور وہ فوری طور پر محفوظ مقام منتقل کردیے گئے۔ لیکن صورتحال یہ ہوچکی تھی کہ مزید شام میں ٹھہرنا اب مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہوچکا تھا، لہٰذا ہجرت کے آپشن پر غور کیا گیا اور کئی ممالک کے ساتھ ساتھ کینیڈا کا نام بھی زیرِ غور تھا کیونکہ وہاں اب تک تارکین وطن کے ساتھ سلوک نسبتاً بہت بہتر تھا۔
بہرحال مقامی لوگوں کی مدد سے خاندان کو کینیڈا ہجرت میں مدد ملی اور کینیڈین حکومت نے سینٹرل لینگلی میں انہیں رہائش کے لیے گھر فراہم کردیا۔ وقت آگے کی جانب بڑھتا رہا اور عیسی کاروبار کرنے لگا، معاشی حالت بہتر ہوئی، بچے اسکول جانے لگے، انگلش سیکھنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے عیسی کا مہاجر خاندان مقامی لوگوں جیسی زندگی گزارنے لگا۔ اس وقت عیسی کے گھر بیٹی کی پیدائش متوقع ہے اور یہ بیٹی پیدا ہوتے ہی کینیڈین شہری ہوگی۔ عیسی کے خاندان میں کینیڈین شہریت رکھنے والی یہ پہلی فرد ہوگی۔ عیسی اور رقیہ جب بھی آبائی وطن کو یاد کرتے ہیں تو غمزدہ ہوجاتے ہیں لیکن یہ جان کر خوش ہوتے ہیں کہ کینیڈا میں ان کی اور ان جیسے کئی تارکین وطن کی زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے۔
یہ محض شام سے ہجرت کرنے والوں کی کہانی نہیں بلکہ 80ء کی دہائی میں افغان جنگ کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی پاکستان آمد کے بعد بھی ایسی کئی کہانی دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔
ایسی ہی ایک کہانی افغان مہاجر حاجی شریف افغانی کی ہے۔
حاجی صاحب نے بتایا کہ ’جب میں افغانستان کی جنگ سے بچ کر پاکستان آیا تو برباد ہوچکا تھا۔ افغانستان میں میرا گھر تباہ اور خاندان بھکر چکا تھا۔ کون زندہ ہے اور کون مر گیا کچھ معلوم نہیں تھا۔ چند سو روپے لے کر پاکستان پہنچا۔ ان چند سو روپوں سے کچرا اکٹھا کرنے اور بیچنے کا کام شروع کیا، اور طے کرلیا کہ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاوں گا بلکہ آخری دم تک محنت کروں گا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج میرے کاروبار کی مالیت کروڑوں میں ہے اور سیکڑوں پاکستانی اور افغانی لوگ کاروبار سے منسلک ہیں۔ میں تو چھوٹا سا کاروبار کرتا ہوں لیکن ہزاروں افغان مہاجرین صرف کوڑے کے کام سے کروڑوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔
حاجی صاحب نے کہا کہ ’آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان کے تمام بڑے کاروبار میں افغان مہاجرین حصہ دار ہیں۔ استعمال شدہ گاڑیاں ہوں، کپڑے کا کاروبار ہو، خشک میوہ جات ہوں، قسطوں پر سامان بیچنے کا کاروبار ہو، قالین کی درآمدات یا برآمدات ہوں, کاسمیٹکس ہوں، کنسٹرکشن ہو، یہاں تک کہ کچرا اٹھانے کا کاروبار ہو، لاکھوں افغانی پاکستان کی اکانومی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
حاجی صاحب کا کہنا ہے کہ ’جو کچھ مجھے پاکستان نے دیا وہ آج تک میرا آبائی وطن افغانستان بھی نہیں دے سکا۔ میں پاکستان میں بہت خوش ہوں۔ میں اور میری آنے والی نسلیں دل سے پاکستانی ہیں کیونکہ اس ملک نے ہمیں رہنے کو چھت اور میرے بچوں کو تعلیم، صحت، روزگار اور بہترین زندگی دی ہے۔ ہماری زندگی لاکھوں پاکستانیوں کی زندگی سے بہتر ہے۔‘
آج دنیا بھر میں تارکین وطن کا دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد ان لوگوں کو یاد کرنا ہے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں۔ جو صرف اپنے مال سے نہیں بلکہ اپنے ناجانے کتنے رشتہ داروں سے بھی محروم کردیے گئے اور اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ وہی ترقی یافتہ ممالک ہیں جنہوں نے جنگوں کے کھیل میں انسانی المیے کو جنم دیا اور جب میدان سج گیا اور تو اسی انسانی المیے پر اپنے جھوٹے اور مکار آنسو بہاتے ہوئے ان کے لیے مخصوص دن منالیا۔
جنگ کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے جہاں کئی لاکھ افراد کی زندگیان تباہ ہوگئی۔ جہاں کئی کئی نسلیں تباہ ہوگئیں، بچے زندہ جل گئے، وہیں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی زندگیاں ہجرت کے نتیجے میں بہتر ہوگئی۔
یہاں یہ سب لکھنے کا مقصد ہرگز ہجرت کو سود مند یا زندگی کو بہتر کرنا کا نسخہ ثابت کرنا نہیں بلکہ کہنا تو یہ مقصود ہے کہ جنگ کا خاتمہ تو شاید ہمارے اختیار میں نہیں ہے، لیکن ہمارے اختیار میں یہ ضرور ہے کہ ان پریشان حال، مشکل سے دوچار، اور اپنے پیاروں سے محروم ہونے والوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے بجائے مرہم ملنے کا کام کیا جائے۔ ان کی بقیہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائے۔
یہ ذمہ داری صرف ممالک پر نہیں بلکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف احتجاج اور مظاہرے کے بجائے ایسے طریقوں کو رائج کریں جن سے لوگوں کی زندگی مزید مشکل ہونے کے بجائے ان میں بہتری آئے۔
اس جنگی کھیل کی ذمہ داری جہاں ان بڑے بڑے ممالک کے سر ہے وہیں مجھے یہاں یہ لکھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ جنگ کے شروع ہونے اور آج تک ختم نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ اقوام متحدہ کی عدم دلچسپی ہے۔ لیکن جو کوتاہیاں ہوئیں ان پر رونے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آئندہ کیا کچھ ہوسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ جن جن ممالک میں مہاجرین کسمپرسی اور مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں ان کو پابند کرے کہ وہ تارکین وطن کے لیے سہولیات پہنچانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔
اقوام متحدہ تمام ممبر ممالک کو جی ڈی پی کی مناسبت سے مہاجرین کے لیے فنڈ دینے کا پابند کرے۔ اقوام متحدہ اپنی نگرانی میں فنڈ کی تقسیم کرے اور فنڈ کے استعمال اور ان سے حاصل شدہ نتائج پر ہر ماہ ایک تفصیلی رپورٹ جاری کرے۔ جو ممالک فنڈ کے استعمال سے مہاجرین کی زندگیاں بدلنے میں ناکام ہوجائیں وہاں تمام فنڈ اقوام متحدہ کے نمائندوں کے ذریعے خرچ کیا جائے۔ مہاجرین کے لیے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ مقرر کیا جائے۔ جن ممالک میں مہاجریں کی تعداد زیادہ ہے وہاں بڑی پرائیوٹ کمپنیوں کو مہاجرین کی نوکریوں کے لیے مخصوص کوٹہ رکھنے کا پابند کیا جائے۔ اس کے علاوہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہجرت کرنے والے بچوں کی مفت تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ ہسپتالوں میں ان کے علاج کے لیے خصوصی پیکج متعارف کروائے جائیں۔
چند مہاجر خاندانوں کو رول ماڈل بناکر پیش کیا جائے۔ انہیں درپیش مسائل کو اجاگر کیا جائے اور ممکنہ حل کے لیے ان مہاجرین کی تجاویز کو اہمیت دی جائے۔
مہاجرین کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے اقوام متحدہ سمیت تمام بڑی انسانی حقوق کی تنطیموں کو ان اقدامات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ یہ غور صرف کارروائی کی حد تک نہیں ہونا چاہیے بلکہ عملی اقدامات کرنے کی طرف خصوصی توجہ دینا ہوگی تاکہ عیسی اور حاجی شریف افغانی جیسے لوگ مہاجر نہ بن سکیں اور اگر مہاجر بن جائیں تو ان کی زندگیاں بدلنے میں سب سے بڑا اور پہلا کردار آپ کا ہو نہ کہ کسی ہمسایہ ملک کا۔ یہی آپ کے وجود کا بنیادی مقصد ہے۔